کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 125
اس واقعے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر بیوی کم سن ہو تو خاوند کو خاص طور پر اس کی دل داری اور دل جوئی کا اور اس کی دلچسپی کے سامان کا اہتمام کرنا چاہیے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مردوں کے ایسے کھیل، جن کا جواز شریعت نے تسلیم کیا ہے، ان کا دیکھنا عورتوں کے کے لیے جائز ہے، بشرطیکہ پردے کے تقاضے مجروح نہ ہوں۔
آج کل کرکٹ، ہاکی وغیرہ، جن کے بڑے بڑے میچ اور مقابلے ہوتے ہیں اور پوری قوم کو ان کو دیکھنے کا بخار چڑھا ہوتا اور ان کے نتیجے کا نہایت بے چینی سے انتظار ہوتا ہے، یہ کھیل سراسر ناجائزہیں جن میں بے پناہ قومی وسائل ضائع کیے جاتے ہیں اور وقت کا ضیاع الگ۔ ان کا نہ کھیلنا جائز ہے اور نہ دیکھنا، سننا۔ نہ مردوں کے لیے اور نہ عورتوں بچوں کے لیے۔
اسلام میں صرف وہ کھیل جائز ہیں جن میں جنگی تربیت کا سامان ہو، جیسے گھوڑوں کا مقابلہ، نیزہ بازی، وغیرہ۔ انھی کھیلوں میں ایک کھیل بیوی کے ساتھ ملاعبت ہے یعنی اس کے ساتھ دل لگی اور پر لطف ہنسی مذاق، جس سے معاشرتی زندگی میں حسن اور خوش گواری پیدا ہو۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی زبان مبارک سے اہلیہ کے ساتھ حسن معاشرت کی تمثیل
صحیح بخاری میں گیارہ عورتوں کا ایک واقعہ بیان ہوا ہے کہ وہ ایک جگہ جمع تھیں، انھوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا: ہر عورت اپنے اپنے خاوند کی صحیح صحیح تفصیل بیان کرے کہ وہ اخلاق و کردار کا کیسا ہے اور بیوی کے ساتھ اس کا رویہ کیسا ہے؟ تو ہر عورت نے اپنے اپنے خاوند کی بابت نہایت اختصار سے تفصیل بیان کی، ان میں ایک عورت ام زرع تھی، اس نے اپنے خاوند ابو زرع کی بابت جو وضاحت کی اس میں اس کے خاوند اور اس کے بچوں وغیرہ کا کردار سب سے بہتر تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کی تفصیلات سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:
((کُنْتُ لَکِ کَأَبِی زَرْعٍ لِأُمِّ زَرْعٍ)) [1]
’’میں تیرے لیے ایسا خاوند ہوں جیسے ابوزرع ام زرع کے لیے تھا۔ ‘‘
[1] صحیح البخاري، کتاب النکاح، باب حسن المعاشرۃ مع الأھل، حدیث: 5189