کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 123
حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑوں کے پر تھے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر ہنسے کہ میں نے آپ کی ڈاڑھیں دیکھیں۔ ‘‘ [1]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا چونکہ صغیر السن (کم سن) تھیں، اس لیے چھوٹی عمر کی بچیوں میں کھلونوں کے ساتھ (بالخصوص گڑے، گڑیاؤں کے ساتھ ) جو رغبت ہوتی ہے، وہ محتاج بیان نہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اندر بھی یہ رغبت اور شوق تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مزاج و طبیعت کے مطابق ان کھلونوں پر کبھی کوئی اعتراض نہیں فرمایا اور ان کو ان کے ساتھ کھیلنے اور گھر میں رکھنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ نیز محلے کی بچیاں بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آ کر کھیلا کرتی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر کوئی اعتراض نہیں فرمایا، خصوصاً عید اور خوشی کے موقع پر، اور وہ آ کر قومی گیت بھی گایا کرتی تھیں۔ [2]
اس سے معلوم ہوا کہ بیوی کے مزاج و مذاق کے مطابق تفریح کی اشیاء بیوی کی دلجوئی اور دل داری کے لیے گھر میں رکھی جا سکتی ہیں بشرطیکہ شریعت میں ان کی اجازت ہو۔
دوسری بات اس سے یہ معلوم ہوئی کہ بچیاں اپنے ہاتھوں سے کھیل کود کے طور پر کپڑے کی جو گڑیاں بناتی ہیں، وہ جائز ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منع نہیں فرمایا۔ البتہ آج کل جو مشینی گڑیاں (پلاسٹک وغیرہ کی) نکل آئی ہیں۔ جن میں سے بعض میں میوزک بھی لگا ہوتا ہے۔ نیز ان سے چھوٹے بچے کھیلتے ہی نہیں، بلکہ ان کو شو پیس کے طور پر شو کیسوں میں بطور سجاوٹ کے بھی رکھا جاتا ہے، ان کا جواز محل نظر ہے کیونکہ ہاتھ کی بنی ہوئی بے ہنگم سی گڑیا اور مشینی گڑیا، ان د ونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے، اول الذکر کے جوازسے ثانی الذکر کا جواز ثابت نہیں ہوسکتا، نہ ایک کو دوسرے پر قیاس ہی کیا جا سکتا ہے۔
[1] سنن أبي داود:كتاب الأدب، باب في اللعب بالبنات، حدیث: 4932
[2] صحیح البخاري:كتاب الصلاة، باب الحراب والدرق يوم العيد، حدیث: 949