کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 122
جب بے حیائی کے پھیلنے کو پسند کرنے والوں کے لئے اتنی سخت وعید ہے تو جو خود اپنے گھر والوں میں اس کو پھیلانے کے ذمہ دار ہیں وہ کتنی سخت وعید کے مستحق ہونگے؟اسی طرح دور دراز کی تفریحی مقامات پر بیوی بچوں کو لے جانا بھی ہر کسی کے بس کا کام نہیں۔ یہ تفریح صرف وہ لوگ برداشت کر سکتے ہیں جن کے پاس وسائل کی فراوانی ہے، ایسے لوگ بیوی بچوں سمیت ایسے مقامات پر جا سکتے ہیں اور وہاں شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے وہاں کے حسین قدرتی مناظر اور روح افروز شادابی سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔
اور جووسائل فراواں سے محروم ہیں، وہ مقامی باغات اور تفریح گاہوں میں حسب ضرورت جاسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں اور بھی جو مناسب تفریح کے مواقع اور طریقے ہیں، انھیں اختیار کیا جا سکتا ہے جس کے بعض نمونے ہمیں اسوۂ رسول میں بھی ملتے ہیں۔ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش مزاجی اور خوش طبعی کی ایک مثال یہ ملتی ہے کہ ایک مرتبہ سفر میں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ تنہائی میسر آئی تو) آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کیا، حضرت عائشہ فرماتی ہیں :
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ تبوک یا خیبر سے واپس تشریف لائے تو میرے طاقچے کے آگے پردہ پڑا ہوا تھا، ہوا چلی تو اس نے پردے کا ایک حصہ ظاہر کردیا جس سے (طاقچے میں پڑے ہوئے) میرے کھلونے اور گڑیاں نظر آنے لگیں، آپ نے پوچھا: عائشہ! یہ کیا ہے؟ میں نے کہا: یہ میری گڑیاں ہیں۔ آپ نے ان میں کپڑے کا ایک گھوڑا بھی دیکھا جس کے دوپر تھے، آپ نے پوچھا: یہ کیا ہے جو میں ان کے درمیان دیکھ رہا ہوں ؟ میں نے کہا: یہ گھوڑا ہے۔ آپ نے پوچھا: ’’اور اس کے اوپر کیا ہے؟‘‘ میں نے کہا: اس کے دوپر ہیں۔ آپ نے کہا: ’’کیا گھوڑے کے بھی پر ہوتے ہیں ؟‘‘ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: آپ نے سنا نہیں کہ