کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 120
اسلام میں ان دونوں انتہاؤں کے درمیان کفایت شعاری کی تلقین ہے۔ شریعت اسلامیہ میں نہ اسراف پسندیدہ ہے اور نہ کنجوسی اور بخیلی۔ بلکہ وہ ان دونوں کے درمیان اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ وہ فضول خرچی کے مقابلے میں جزر سی اور کفایت شعاری کو پسند کرتا ہے لیکن کفایت شعاری کا مطلب بخل نہیں، بلکہ حد سے تجاوز نہ کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا ﴾ ’’اور نہ رکھ تو اپنا ہاتھ اپنی گردن کے ساتھ بندھا ہوا اور نہ اسے کھول دے بالکل کھول دینا، کہ تو بیٹھ رہے ملامت کیا ہوا، تھکا ماندہ۔ ‘‘[ بنی اسرائیل17:29] اس آیت کی تفسیر ’’احسن البیان ‘‘ میں درج ذیل الفاظ میں کی گئی ہے: ’’اس میں انفاق (خرچ کرنے) کا ادب بیان کیا جا رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان نہ بخل کرے کہ اپنی اور اپنے اہل عیال کی ضروریات پر بھی خرچ نہ کرے اور دیگر مالی حقوق واجبہ بھی ادا نہ کرے۔ اور نہ فضول خرچی ہی کرے کہ اپنی وسعت اور گنجائش دیکھے بغیر ہی بے دریغ خرچ کرتا رہے۔ بخل کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان ملوم یعنی قابل ملامت و مذمت قرار پائے گا اور فضول خرچی کے نتیجے میں محسور (تھکاماندہ اور پچھتانے والا)۔ محسور، اسے کہتے ہیں جو چلنے سے عاجز آچکا ہو، فضول خرچی کرنے والا بھی بالآخرخالی ہاتھ ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔ اپنے ہاتھ کو اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ۔ یہ کنایہ ہے بخل سے۔ اور نہ اسے بالکل ہی کھول دے۔ یہ کنایہ ہے فضول خرچی سے۔ ‘‘ [1]
[1] تفسیر احسن البیان، مذکورہ آیت۔