کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 119
ایسے خاوندوں کی بیویاں جب میکے (کچھ دنوں کے لیے اپنے والدین کے ہاں ) جاتی ہیں تو بالکل خالی ہاتھ جاتی ہیں، خاوند ان کو جیب خرچ دینا بھی گوارا نہیں کرتے۔ وہ والدین کے ہاں معمولی معمولی ضروریات کے لیے بھی والدین ہی سے رقم لینے پر مجبور ہوتی ہیں۔ والدین کے ہاں ان کی حیثیت مہمان کی ہوتی ہے اور والدین حتی الامکان حسب استطاعت اپنی مہمان بیٹیوں اور نواسے نواسیوں کی مہمان نوازی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے حتی کہ بچوں کی ضروریات کے لیے بھی کچھ خرچ کرنا پڑے تو وہ دریغ نہیں کرتے۔ لیکن ایسے خاوندوں کو سوچنا چاہیے کہ ان کا یہ رویہ اخلاقاً اور شرعاً صحیح ہے؟آخر شادی کے بعد بیوی بچوں کے نان و نفقہ کا مکمل ذمے دار خاوند ہے۔ اس کی بیوی چند دنوں کے لیے ماں باپ کے پاس جائے تو بلا شبہ اس کو کھلانا پلانا تو مہمان نوازی کا ایک حصہ ہے اور ماں باپ یہ فریضہ نہایت خوش دلی سے ادا کرتے ہیں۔ لیکن کیا بیوی کو یا بچوں کو دوائی کی ضرورت ہو، یا بچوں کے بعض اضافی اخراجات ہوں۔ کیا ان کے لیے بھی رقم مہیا کرنا والدین کی ذمے داری ہے؟ نہیں، یقیناً نہیں۔ اس کا ذمے دار خاوندہے۔ اگر وہ بیوی کو خالی ہاتھ میکے چھوڑ کر جاتا ہے تو یقیناً وہ کنجوسی اور بخیلی کے علاوہ بد اخلاقی کا بھی مظاہرہ کرتا ہے اور اپنے سسرال پر وہ ناروا بوجھ ڈالتا ہے جس کے ذمے دار وہ نہیں ہیں، بلکہ خاوند ہے، گو وہ خاموشی سے اضافی خرچ بھی پورا کردیں لیکن خاوند کی یہ کنجوسی اور بد اخلاقی ان کے لیے بار خاطر ضرور بنتی ہے اور بیوی کے لیے بھی شرمندگی کا باعث، اگر بیوی حساس اور سمجھ دار ہو۔
بہر حال بعض لوگوں کا یہ رویہ کنجوسی اور بخیلی کی انتہا ہے جو حسن معاشرت، حسن اخلاق کے منافی اور شریعت سے متجاوز ہے۔