کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 118
مطلب یہ ہے کہ جن کی آمدنی تھوڑی ہے، وہ صاحب حیثیت نہیں ہیں۔ ان کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ پہلے اپنے اہل و عیال کی ضروریات پر خرچ کریں، اس کے بعد دیگر مدات خیر پر خرچ کریں اور وہ بھی اتنی مقدار میں جس سے نفقات واجبہ متأثر نہ ہوں۔ ایسے لوگوں کے لیے حکم ہے کہ وہ صدقہ بھی اپنی مالی پوزیشن کے مطابق ایک حد تک ہی کریں، اس سے تجاوز نہ کریں۔ ورنہ اصحاب حیثیت کے لیے تو اجازت ہے کہ وہ جتنا چاہیں اللہ کی راہ میں خرچ کر سکتے ہیں بلکہ ان کو تو خوب اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم ہے۔
اور تبذیر کے معنی، ناجائز امور میں خرچ کرنا ہیں، چاہے تھوڑا ہی ہو۔ بہر حال جائز امور میں بھی فضول خرچی کی اجازت نہیں ہے۔ جب کہ ناجائز امور میں تو خرچ کرنے کی قطعاً اجازت ہی نہیں ہے۔
فضول خرچی سے ممانعت، افراط کی ممانعت ہے جو ہمارے معاشرے میں زندگی کے ہر شعبے میں عام ہے بلکہ یہ افراط (فضول خرچی) ہمارا قومی شعار بن چکی ہے۔
اس کے مقابلے میں تفریط (کوتاہی) ہے یعنی ضرورت کے مطابق بھی خرچ نہ کرنا بلکہ تنگ دلی، کنجوسی اور بخل کا مظاہرہ کرنا۔ بعض لوگ اس مرض میں بھی مبتلا ہوتے ہیں اور اس کا مظاہرہ وہ اپنے اہل و عیال کے معاملے میں بھی کرتے ہیں۔ بیوی کو پورا خرچ نہ دینا، ایک ایک پائی کا اس سے حساب لینا۔ یا گھریلو سامان خود لا کر دینا تو وہ پورا لا کر نہ دینا۔ یا بیوی کو حسب ضرورت کچھ خریدنے کے لیے جیب خرچ بھی مہیا نہ کرنا، اخراجات کے معاملے میں بیوی پر اعتماد نہ کرنا اور معمولی معمولی اخراجات کے لیے بھی اس کا خاوند کے رحم وکرم کا محتاج ہونا، وغیرہ۔ یہ ساری صورتیں بخل اور کنجوسی کی ہیں جو ناپسندیدہ ہیں۔