کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 117
’’خوش حال آدمی اپنی خوش حالی کے مطابق (بیوی بچوں پر) خرچ کرے اور جسے رزق کم دیا گیا ہو، وہ اس مال میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے۔‘‘ دوسرا اصول یہ بیان فرمایا ہے: ﴿وَّكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْااِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ﴾ [الأعراف:31] ’’کھاؤ پیو اور اسراف فضول خرچی نہ کرو، بلاشبہ اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ ‘‘ ایک اور مقام پر فرمایا: ﴿ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا Oاِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ كَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّيٰطِيْنِ وَكَانَ الشَّيْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا ﴾ [سورۂ بنی اسرائیل26، 27] ’’فضول خرچی مت کر، یقیناً فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بہت ہی ناشکرا ہے۔ ‘‘ قرآن نے فضول خرچی کے لیے اسراف اور تبذیر دو لفظ استعمال کیے ہیں۔ دونوں لفظ ضرورت سے زیادہ خرچ کرنے پر بولے جاتے ہیں اس لیے دونوں کے معنی فضول خرچی کے کیے جاتے ہیں۔ بعض اس میں فرق کرتے ہی ہیں، وہ کہتے ہیں : اسراف کے معنی ہیں، حد سے نکل جانا۔ اس لیے ہر چیز میں حد سے نکل جانا اسراف ہے۔ کھانے پینے، یعنی ضروریات زندگی پوری کرنے میں حد سے تجازو کرنا بھی اسراف ناپسندیدہ ہے۔ ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((کُلُوا وَاشْرَبُوا وَالْبَسُوا وَتَصَدَّقُوا فِی غَیْرِ اِسْرَافٍ وَلَا مَخِیلَۃٍ))[1] ’’کھاؤ، پیو، پہنو اور صدقہ کرو۔ البتہ دو باتوں سے گریز کرو، اسراف اور تکبر سے۔ ‘‘ صدقے میں تو اسراف پسندیدہ ہونا چاہیے کیونکہ اللہ کی راہ میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرنا مطلوب ہے، لیکن اس حدیث میں صدقے میں بھی اسراف سے روکا گیا ہے۔ اس کا
[1] صحیح البخاری :کتاب اللباس، باب قول اللہ تعالیٰ:قل من حرم زینۃ اللہ التی اخرج لعبادہ قبل الحدیث، رقم الحديث:5783