کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 116
کی بے توقیری نہ کی جائے اور نہ اس کو گھر سے نکال کر اس کی عصمت و تقدس کو خطرے میں ڈالا جائے۔ عورت کی عزت جس طرح گھر کے اندر رہنے میں ہے، اسی طرح مرد کی عزت گھر سے باہر نکل کر کسب معاش کے لیے محنت و جدو جہد کرنے میں ہے۔ جو مرد نکھٹو بن کر گھر میں بیٹھے رہتے ہیں یا دوستوں کے ساتھ گپ شپ ہی کو مقصد زندگی بنائے رکھتے ہیں اور اہل و عیال کے نان نفقہ کی ذمے داری سے غافل رہتے ہیں جس کی وجہ سے مجبوراً عورت کو اپنا اور بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں یا پھر اپنے میکے کے سہارے زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہے، ظاہر بات ہے ایسے مردوں کا رویہ حسن معاشرت کے یکسر منافی ہے۔ حسن معاشرت کا تقاضا یہ ہے کہ مرد بہ رضا ورغبت اپنی بیوی بچوں کی کفالت کی ذمے داری بہ طریق احسن ادا کرے۔ 6۔ خرچ میں اعتدال اور میانہ روی ضروری ہے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اخراجات کے معاملے میں اسلام کی اعتدال پر مبنی تعلیمات کی طرف بھی کچھ اشارہ کردیا جائے کیونکہ ہمارے معاشرے میں ہر معاملے میں افراط و تفریط کا سلسلہ عام ہے۔ معاشیات اور مالیات میں بھی یہ افراط و تفریط اکثر وبیشتر دیکھنے میں آتی ہے۔ کہیں اسراف و تبذیر ہے تو کہیں کنجوسی اور بخل کی انتہا۔ اسلام میں یہ دونوں رویے ناپسندیدہ ہیں۔ بیوی بچوں کے نان و نفقے پر کس طرح خرچ کیا جائے، اس کے لیے اسلام نے کسی حد کا تعین نہیں کیا ہے بلکہ انصاف پر مبنی ایک نہایت اہم اصول یہ بیان فرمایا ہے۔ : ﴿لِيُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهٖ وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهٗ فَلْيُنْفِقْ مِمَّآ اٰتٰىهُ اللّٰهُ﴾ [الطلاق7]