کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 113
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی ازواج مطہرات کے معاملے میں عمل کیا، اس کی ایک جھلک حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ عورت کو اہمیت نہ دینا اور استبداد رائے کا مظاہرہ کرنا یکسر غلط اور حسن معاشرت اور اسوۂ رسول کے خلاف ہے۔
5۔ کسب معاش، یعنی سرمائے کی فراہمی مرد کی ذمے داری ہے
اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت، دونوں کو الگ الگ مقاصد کے لیے تخلیق کیا ہے اور اسی مقصد تخلیق کے تحت دونوں کو جسمانی، ذہنی اور دماغی صلاحیتیں بھی ایک دوسرے سے مختلف عطا کی ہیں۔ پھر اس کے مطابق دونوں کا دائرۂ کار بھی متعین فرما دیا ہے۔ عورت کا دائرۂ کار گھر کی چار دیواری ہے جہاں وہ خانگی امور (کھانے پکانے، صفائی دھلائی وغیرہ) بچوں کی دیکھ بھال، ان کی تربیت و نگرانی، گھر کی حفاظت اور خاوند کے مال کی حفاظت اور خاوند کی خدمت وغیرہ کی ذمے دار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو صلاحیتیں بھی ایسی ہی دی ہیں کہ وہ یہ سارے امور نہایت خوش اسلوبی سے سر انجام دے لیتی ہے۔
اسی لیے اس کو حکم ہے :
﴿وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ﴾ [الأحزاب33]
’’تم اپنے گھروں میں ٹک کر رہو۔ ‘‘
مرد کا دائرۂ کار بیرون در، یعنی گھر سے باہر کے امور ہیں، گھریلو نظام چلانے اور ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کے لیے معاشی جدو جہد اس کی ذمے داری ہے، وہ تجارت کرے، کھیتی باڑی کرے، ملازمت کرے، گھر کا سودا سلف لائے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سارے امور اسی کے ذمے ہیں۔