کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 112
کرے اور اس سے مشاورت کا اہتمام کرے، اس کے دلائل سنے اور اپنے دلائل اس کو سنائے، اس طرح زیر بحث مسئلے کے سارے پہلو سامنے آجائیں گے جس کی روشنی میں بہتر فیصلہ کرنا آسان ہوجائے گا۔
اس سلسلے میں ذیل کی حدیث سے ہمیں کافی رہنمائی ملتی ہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’اللہ کی قسم! ہم زمانۂ جاہلیت میں عورتوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی بابت وہ احکام نازل فرمائے جو (اسلام نے عورتوں کی بابت دیے۔ ) اور ان کو بہت سی رعایتیں دیں (جس سے ان کے اندر اعتماد اور گھریلو معاملات میں اختلاف رائے کا شعور پیدا ہوا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ) ایک مرتبہ میں اپنی بیوی کو کسی بات کا حکم دے رہا تھا کہ (اس نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہا) اگر آپ یہ کام اس اس طرح کر لیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ میں نے اس سے کہا: تجھے میرے معاملے میں دخل دینے کا کیا حق ہے؟ اور میرے حکم سے سرتابی کیوں کرتی ہے؟ اس نے مجھ سے کہا: ابن خطاب! آپ پر مجھے تعجب ہے، آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی بات پر بحث و تکرار نہ کی جائے، حالانکہ آپ کی بیٹی (ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بحث و تکرار کرتی ہے جس کی وجہ سے (بعض دفعہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سارا دن اس سے ناراض رہتے ہیں۔ ‘‘ [1]
اسلام نے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک اور لطف و کرم کا معاملہ کرنے کا جو حکم دیا ہے، اس کے نتیجے میں مسلمان عورت کے اندر جو شعور اور اعتماد پیدا ہوا، جس پر خود
[1] صحیح البخاري، کتاب تفسیر القرآن، باب لتبتغی مرضاۃ أزواجك، حدیث: 4913