کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 111
3۔ کسی بھی اختلاف کو انا اور وقار کا مسئلہ نہ بنایا جائے
گھریلو معاملات میں، رشتے داروں کے معاملات میں، حتی کہ اپنے ہی بچوں کے معاملات میں میاں بیوی کے درمیان اختلاف ہوتا رہتا ہے اور خانگی زندگی اکثر وبیشتر اسی طرح گزرتی ہے، الا ماشاء اللہ۔ اگر کسی وقت یہ اختلاف شدت اختیار کر جائے تو مرد کو چاہیے کہ وہ صبر و تحمل اور در گزر سے کام لے اور کسی بھی اختلاف یا مسئلے کو اپنی انا اور وقار کا مسئلہ نہ بنائے۔ انا اور وقار کا مسئلہ بنا لینے سے وہ اختلاف ختم یا کم نہیں ہوتا بلکہ اس کی شدت ووسعت میں اضافہ ہوجاتا ہے اور بہت سی خرابیوں اور مسائل کا باعث بن جاتا ہے۔ اور اگر اپنی انا کو دبا کر افہام و تفہیم اور تواضع سے کام لیا جائے تو بڑے سے بڑا اختلاف بھی ختم یا کم ہوجاتا ہے اور کوئی درمیانی راستہ اختیار کرنے سے اتفاق رائے پیدا ہوجاتا ہے۔
4۔ بیویوں کو بھی اختلاف رائے اور مشورے کا حق دیں
بعض مرد نہایت خود پسند ہوتے ہیں، وہ کسی کو بھی اختلاف رائے کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور کسی سے مشورہ لینے کی ضرورت بھی نہیں سمجھتے۔ ایسے لوگ اپنے آپ ہی کو عقلِ کل سمجھتے اور بیوی کی رائے کو قطعاً کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ ہر معاملے میں اپنی من مانی کرتے اور گھر میں ڈکٹیڑ شپ (آمریت ) نافذ کرتے ہیں۔
یہ رویہ بھی خوش گوار ماحول کے منافی ہے جب کہ گھریلو زندگی کی خوش گواری کے لیے ماحول کی خوش گواری نہایت ضروری ہے اور ایسا تب ہی ہوسکتا ہے کہ مرد بیوی کو زندگی کا دوسرا پہیہ سمجھے، جیسا کہ وہ واقعتاً ہے، اور ہر اہم معاملے میں اس کو اعتماد میں لے کر فیصلہ