کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 110
2۔ خوبیوں پر نظر رکھی جائے
ضروری نہیں کہ ہر مرد کو اس کی پسند اور خواہش کے مطابق بیوی مل جائے۔ اگر ایسا ہوجائے تو سبحان اللہ۔ اللہ کا شکر ادا کرے۔ بصورت دیگر اس پر نہ گھٹن محسوس کرے اور نہ اس سے نفرت و کراہت کا اظہار۔ بلکہ نوشتۂ تقدیر سمجھ کر اسے برداشت کرے اور اس کے حقوق ادا کرے، ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ اسی میں اس کے لیے بہتری کا سامان پیدا کردے، اس سے اللہ تعالیٰ اولاد صالح عطا فرما دے جو اس کے لیے دین و دنیا کی سعادت کا باعث بن جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَعَسٰٓى اَنْ تُحِبُّوْا شَئًْا وَّھُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ﴾ [ البقرۃ216]
’’ہوسکتا ہے جس چیز کو تم ناپسند کرو، وہ تمھارے لیے بہتر ہو۔ ‘‘
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے:
’’کوئی مومن مرد کسی مومنہ عورت (بیوی)سے بغض دلی نفرت نہ رکھے، اگر اس کے اندر کوئی ناپسندیدہ چیز ہے تو کوئی دوسری چیز پسندیدہ بھی ہوگی۔‘‘[1]
مطلب یہ ہے کہ ہر انسان میں اچھائی اور برائی دونوں ہی ہوتی ہیں۔ اس لیے نباہ کا طریقہ یہی ہے کہ برائیوں کو نظر انداز کرکے اچھائیوں (خوبیوں ) پر نظر رکھی جائے۔ انسان کو اپنے والدین، اولاد، بہن بھائیوں کے معاملے میں بھی یہی اصول اپنانا پڑتا ہے، اس کے بغیر چارہ نہیں، ورنہ انسان کا مذکورہ رشتوں کا نبھانا بھی ناممکن ہوجائے۔
بیوی کے لیے بھی اسی اصول کو سامنے رکھا جائے تو بیوی کے ساتھ، اس کی بعض ناپسندیدہ باتوں کے باوجود نباہ آسان ہوجاتا ہے اوراس صبر و ضبط کے صلے میں اس کو اللہ تعالیٰ دین و دنیا کی بہت سی سعادتوں سے بھی نواز دیتا ہے۔
[1] صحيح مسلم،كتاب الرضاع، باب الوصية بالنساء، حدیث: 1469