کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 108
صدق دل سے عمل کریں تو پیدا ہونے والی پیچیدگیاں آسانی سے سلجھ سکتی ہیں اور اخلاق و کردار کی کوتاہیوں کی اصلاح ہوسکتی ہے۔ ازدواجی زندگی کو خوش گوار بنانے کا یہی اصول ہے کہ دونوں میاں بیوی اولاً ایک دوسرے کے حقوق صحیح طریقے سے ادا کریں تاکہ کوئی ناخوشگوار مرحلہ ہی نہ آئے لیکن کسی کی کوتاہی سے اگر ایسا مرحلہ آ ہی جائے تو مذکورہ فرمان رسول میں بتلائی ہوئی حکمت عملی کو بروئے کار لا کر اس کا ازالہ آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ معاملات میں زیادہ بگاڑ، جس سے گھر اجڑ جاتے ہیں، اسی وقت آتا ہے کہ جب چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز کرنے یا ان کو مناسب حکمت عملی سے سلجھانے کے بجائے، سخت اور نامناسب رویہ اختیار کیا جائے اور ان کو بڑھایا جائے۔ اس سے ایک چنگاری شعلہ بن جاتی ہے اور گھر بھسم ہو کر رہ جاتا ہے۔ بگاڑ کا ایک اور سبب مرد کا قوت برداشت اور صبر و دانائی سے کام لینے کے بجائے جلد بازی اور اپنی حاکمیت و قوامیت کا بے اعتدالی سے استعمال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر قوّام بنایا ہے، اس قوّامیت کا تقاضا ہے کہ وہ صنف نازک کی فطری کمزوری اور کجی کوحکمت و دانائی سے برداشت کرے نہ کہ کمزور کے مقابلے میں اپنی قوت کا مظاہرہ کرے۔ اس قوت مردانگی کا بے جا استعمال بھی اکثر گھروں کے آرام و سکون کو برباد کر دیتا ہے۔ مذکورہ احادیث میں مرد کو یہی نکتہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ عورت کے مقابلے میں اللہ نے مرد کو عقل و شعور اور جسمانی قوت زیادہ عطا کی ہے، اس اعتبار سے گھر کو آباد رکھنے میں اس کی ذمے داری بھی زیادہ ہے، اس کو ہر وقت حکمت و دانائی اور صبر وتحمل سے کام لینا چاہیے۔ جو مرد انِ حق آگاہ اس نکتے کو سمجھ لیتے ہیں، وہ عورت میں موجود اس کی خوبیوں کی قدر کرتے اور کمزوریوں اور کوتاہیوں کو برداشت کرتے ہیں، نتیجتاً ان کی ازدواجی زندگی پر سکون گزرتی اور گھر جنت کا نمونہ بنا رہتا ہے اور جو مرد اس کے برعکس رویہ اختیار کرتے اور عورت کی خوبیوں کو نظر انداز کرکے اس کی فطری کجی (ٹیڑھی پسلی) کو سیدھا کرنے کی ناکام سعی کرتے ہیں، وہ اپنا گھر اجاڑ بیٹھتے ہیں۔