کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 101
اور فطری کجی کو حکمت اور صبر سے برداشت کرے۔ اسے بالکل سیدھا کرنے کے چکر یا زغم میں نہ پڑے ورنہ وہ اسے سیدھا کرتے کرتے اپنا گھر اجاڑ لے گا۔
٭ گھر میں آنے والے مہمان کا تعلق بیوی کے خاندان سے ہو یا شوہر کے خاندان سے۔ بہ حیثیت مہمان کے اپنی طاقت کے مطابق اس کی مہمان نوازی کی جائے۔ مہمان نوازی میں اپنے خاندان کے فرد کو تو اپنا سمجھا جائے اور دوسرے کو غیر۔ یہ تفریق بھی باہم بغض و عناد اور دلوں میں کدورت کا باعث بنتی ہے۔ اس سے اجتناب کیا جائے۔
٭ عُسر یا یُسر (تنگ دستی ہویا خوش حالی) دونوں حالتوں میں اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور پورے خلوص سے عہد وفا نبھائیں۔
٭ دونوں اپنی خواہشات اور جذبات کے مقابلے میں اللہ رسول کے احکام کو فوقیت اور ترجیح دیں۔
٭ گھر میں اور گھر سے باہر شرعی پابندیوں کا اہتمام کریں۔
٭ ساس، آنے والی بہو کو اپنی بیٹی سمجھے، بیٹی کی طرح اس سے پیار کرے اور بیٹی کی طرح ہی اس سے سارا معاملہ کرے۔ بہو اپنی ساس کو ماں سمجھے، ماں کی طرح اس کا ادب و احترام کرے اور بیٹی بن کر گھر کے سارے کام کاج میں بڑھ چڑھ کرحصہ لے۔ عورت کی عزت کام کاج ہی میں ہے نہ کہ شہزادی بن کر اٹوانٹی کھٹوانٹی لے کر پڑ رہنے میں۔
٭ نندیں (خاوند کی بہنیں ) بھی بھابھی کو بہن سمجھیں اور بہنوں کی طرح اس سے معاملہ کریں۔ گھر کے سارے کام باہم مل کر کریں، آنے والی دلہن پر ہی سارا بوجھ نہ ڈال دیں۔ ان کو سمجھ لینا چاہیے کہ گھر کا سکون باہم پیار و محبت میں ہے نہ کہ باہم رقابت اور لگائی بجھائی میں۔