کتاب: حجیت قراءات - صفحہ 97
(آخری دَور) کے مطابق ہیں۔ ‘‘ یہ قراء ات مصاحف عثمانیہ، جنہیں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے مختلف شہروں کی طرف بھیجا تھا، کے رسم کے مطابق ہیں۔ان مصاحف کی صحت پرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے۔اسی طرح اس بات پربھی صحابہ کرام کا اتفاق وجود میں آیا کہ جو قراء ات ان مصاحف کی رسم کے مخالف ہوں گی، انہیں چھوڑ دیا جائے گا اور یہ بات معلوم ہے کہ قراء ات ِعشرہ ان مصاحف سے خارج نہیں ہیں۔ان قراء ات کی ایک مصحف سے مطابقت نہیں ہوتی، تو کسی دوسرے سے ضرور ہوجاتی ہے۔اہل فن کے ہاں رسم ِعثمانی کی مخالفت سے مراد تمام مصاحف کی مخالفت ہے۔ اہل ِفن کے ہاں جو قراء ات عرضۂ اَخیرہ کے مخالف تھیں، انہیں منسوخ قرار دیا گیا ہے۔اسی وجہ سے مصاحف ِعثمانیہ میں صرف وہی حروف لکھے گئے ہیں، جن کو عرضۂ اَخیرہ میں ثابت رکھاگیا اوران کا قرآن کریم ہونا تواتر سے ثابت تھا، چنانچہ ان میں سے کسی بھی قراء ت کو منسوخ نہیں کیاگیا۔ البتہ جن حروف کو عرضۂ اخیرہ میں منسوخ کردیا گیا تھا ان کو مصاحف میں لکھنے سے بھی گریز کیا گیاتھا۔ موجودہ قراء اتِ عشرہ حروفِ سبعہ کا جزء ہیں، کل نہیں: شروع میں کہا گیاہے کہ قراء اتِ عشرہ اَحرف ِسبعہ کا جزء ہیں، کل نہیں! اس بات کی مزید وضاحت ہم یہاں بیان کئے دیتے ہیں۔جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بیان کیا ہے کہ قراء ات متواترہ ہوں یاغیرمتواترہ، ان کااختلاف سات اقسام میں منقسم ہے اوران سات اقسام کی ہم نے کئی مثالیں پیش کی تھیں۔ پھر ان سات قسم کے اختلافات میں سے ہر ایک کے تحت کئی افراد، متعدد جزئیات اورمختلف صورتیں ہیں۔ان افراد و اجزاء اورصورتوں میں کچھ تو ایسی ہیں، جن کا بطریق ِتواتر قرآن ہوناثابت ہے، اور کچھ ایسے بھی ہیں جن کو عرضۂ اخیرہ میں منسوخ کردیاگیاتھا اور انہیں قرآن کریم شمارنہیں کیاگیا۔ پہلے تو ہم نے متواتر کی سات اقسام کی امثلہ پیش کی تھیں، اب ایسی امثلہ بیان کریں گے جنہیں ان سات اقسام میں سے منسوخ کردیا گیاتھااورانہیں قرآن مجید میں شمار نہیں کیا گیا تھا: