کتاب: حجیت قراءات - صفحہ 90
لیکن صدقہ کرنے والے مومن بندوں میں دونوں اَوصاف پائے جاتے ہیں۔ ٭ ﴿اَزَلَّھُمَا الشَّیْطَانُ اور اَزَالَھُمَا الشَّیْطَانُ﴾ (البقرہ:۳۶) اَزَالَہُمَا کا معنی ہے: دور کردیا یعنی شیطان نے آدم و حواء کو جنت سے دور کردیا، اور اَزَلَّہُمَاکے معنی ہیں: شیطان نے انہیں پھسلایا اور غلطی میں واقع کردیا۔ دونوں قراء ات کے اگرچہ معنی مختلف ہیں، لیکن مصداق کے لحاظ سے نتیجہ ایک ہی ہے۔ وہ یوں سمجھیے کہ زلۃ تقاضا کرتی ہے جنت سے دوری کا، تو یہاں دونوں معانی ایک دوسرے کو لازم و ملزوم ہیں یعنی زلۃ ملزوم اور جنت سے دوری اس کالازمہ ہے۔ اسی وجہ سے سیدناابن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: ’’قرآن کریم میں جھگڑا اوراختلاف نہ کیاکرو،کیونکہ اس میں اختلاف نہیں ہے۔ اگردو حروف میں سے ایک کسی ایسی چیز کا حکم دیتا ہے،جس سے دوسرا روکتاہے توبظاہر یہ اختلاف نظر آتاہے،حالانکہ وہ حرف ان سب معانی کا جامع ہوتا ہے۔چنانچہ جو ایک قراء ت پڑھتا ہے، دوسری کوبے رغبتی اختیار کرتے ہوئے نہ چھوڑے، کیونکہ قرآن کے ایک حرف کے انکار سے مکمل قرآن کا انکار لازم آتاہے۔‘‘ خلاصہ کلام یہ ہے کہ تمام اختلافات ِقراء ات تنوع وتغایر کے قبیل سے ہیں، نہ کہ تضاد اور تناقض کے قبیل سے، کیونکہ تناقض اورضدیت کلام اللہ میں ہر حال میں محال ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان عالی شان ہے: ﴿ وَلَوْکَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰه لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلاَفاً کَثِیْرًا﴾ (النسآء:۸۲) چنانچہ جب قرآن کریم میں اختلاف تضاد نہیں ہے، تو مطلب یہ ہوا کہ قرآن کریم منزل من اللہ ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم