کتاب: حجیت قراءات - صفحہ 89
فرق نہیں پڑتا۔ ٭ یَحْسِبُ:…اس کو سین کے کسرہ یا فتحہ کے ساتھ پڑھنے سے معنی ایک رہتا ہے۔ ٭ بِالْبَخَلِ:…اس کو بِالْبَخَلِ یا بِالْبُخْلِ پڑھنے سے معنی ایک رہتا ہے۔ ٭ مِرْفَقًا:…میم کے کسرہ اور فتحہ دونوں قراء ات کا معنی ایک ہی ہے۔ ٭ فَتَبَیَّنُوْا اور فَتَثَبَّتُوْا دونوں طرح مروی ہے اور معنی میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔ مذکورہ الفاظ اور ان کے علاوہ بہت سارے دیگر کلمات بھی اسی قبیل سے ہیں۔ ۲۔ الفاظ کے مختلف ہونے سے معنی تبدیل ہوجائے، لیکن دونوں معانی ایک دوسرے کے متعارض یا متناقض نہ ہوں، بلکہ کوئی ایسی توجیہہ ممکن ہو، جواس معنی کومتحد رکھ سکے، مثلاً ٭ ﴿وَانْظُرْ اِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِرُھَا﴾ (آل عمران:۲۵۹) اب نُنْشِرُ میں ایک قراء ت راء اوردوسری زا کے ساتھ ہے۔ نُنْشِرُہَا کا معنی ہے: ہم اسے بعد الموت حساب کے لیے زندہ کریں گے، اور نُنْشِزُہَا کامعنی ہے: ہم اس کے بعض حصوں کوبعض کے ساتھ ملادیں گے، یہاں تک کہ وہ ہڈیاں جمع یا اکٹھی ہوجائیں گی۔اگرچہ معانی دونوں مختلف ہیں، لیکن یہ توجیہہ اسے مصداق سے علیحدہ نہیں ہونے دیتی کہ اللہ تعالیٰ جب اپنی مخلوقات کو دوبارہ اٹھانے کا ارادہ فرمائیں گے تو وہ ہڈیوں کو اکٹھا فرمائیں گے اورپھر ان ہڈیوں سے مجسم مخلوق کو زندہ کردیں گے۔ ٭ ﴿اِنَّ الْمُصَّدِّقِیْنَ وَالْمُصَّدِّقَاتِ﴾ (الحدید:۱۸) ان کلمات کو صاد کی تشدید اورتخفیف دونوں طرح سے پڑھا گیاہے۔تشدید کی شکل میں اصل کلمات المُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ ہوگا، پھر تاء کو صاد کیا اور صاد کا صاد میں ادغام کردیا تو الْمُصَّدِّقِیْنَ وَالْمُصَّدِّقَات ہوگیا،جس کا معنی ہے: اپنے مالوں سے صدقات نکالنے والے اوروالیاں۔ تخفیف والی قراء ت کی صورت میں معنی ہوگا کہ وہ لوگ جو دین کی بھرپور تصدیق کرنے والے ہیں اور دین کے اَحکامات کی بجاآوری اوراتباع کے شوق سے ان کے دل معمورہیں۔ اگرچہ دونوں قراء ات میں معانی کا واضح اختلاف پایا جاتا ہے،