کتاب: حجیت قراءات - صفحہ 81
اسے ماضی بناتے ہوئے قَالَ اور اَمر بناتے ہوئے قُلْ دونوں طرح پڑھاگیا ہے۔ مزید برآں کسی فعل کو مضارع سے اَمرکی طرف لوٹانا بھی اس نوع میں شامل ہے، مثلاً ٭ ﴿فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰه عَلٰی کُلِّ شَئ قَدِیْرٌ﴾ (البقرۃ:۲۵۹) اس آیت میں فعل مضارع کی قراء ت کی صورت میں أَعْلَمُ کو وصل وابتداء میں ہمزہ قطعی مفتوح اور میم کے ضمہ کے ساتھ پڑھاگیاہے۔ دوسری قراء ت میں اس کلمہ کو امر بناتے ہوئے اعْلَمْ کے ہمزہ کو وصلی شمارکیا گیا ہے، جو حالت ِوصل میں حذف کردیاجائے گا اور حالت ِابتدا میں اسے مکسور پڑھا جائے گا۔ ۳… وجوۂ اَعراب کا اختلاف ٭ ﴿وَلاَ تُسْئَلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِیْمِ﴾ (البقرہ:۱۱۹) اس آیت میں تُسْأَلُ کو تائے مضمومہ اور لامِ مرفوعہ کے ساتھ پڑھاگیاہے، چنانچہ ا س صورت میں لاء نافیہ ہوگااورفعل مضارع نواصب وجوازم سے خالی ہونے کی بناء پر مرفوع ہوگا۔ دوسری قراء ت کے مطابق تَسْئَلْ کو تائے مفتوحہ اور لام مجزومہ سے پڑھا جائے گا۔ اس وقت لائے نہی ہوگا اورفعل مضارع حالت ِجزمی میں ہوگا۔ ٭ ﴿اِلَّا اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃٌ﴾ (النساء:۲۹ ) اس آیت میں تِجَارَۃً کوتَکُوْنَ کی خبر بناتے ہوئے منصوب پڑھا گیا ہے، جبکہ دوسری قراء ت میں تکُوْنَ کو کان تامہ مانتے ہوئے تِجَارَۃً کو بر بنائے فاعل مرفوع پڑھا گیا ہے۔ ٭ ﴿ وَلِبَاسَ التَّقْوٰی﴾ (الاعراف:۲۶) لِبَاسَ کی سین کو مرفوع اورمنصوب دونوں طرح پڑھا گیا ہے۔ ٭ ﴿اللّٰه الَّذِی لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ﴾ (ابراہیم:۲) اس میں لفظ الله کو مرفوع اورمجرور دونوں طرح پڑھا گیا ہے۔ ٭ ﴿ فِی لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ﴾ (البروج:۲۲) مَحْفُوْظٍ کو مجرور و مرفوع دونوں طرح پڑھا گیا ہے ۔