کتاب: حجیت قراءات - صفحہ 70
قَرَأَ الرَّجُلُ فَقَالَ الرَّجُلُ: ہٰکَذَا أَقْرَأَنِیْہَا رَسُوْلُ اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم فَخَرَجَا إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم حَتّٰی أَتَیَاہُ فَذَکَرَا ذٰلِکَ لَہٗ، فَقَالَ صلي اللّٰه عليه وسلم : إِنَّ ہٰذَا الْقُرْآنَ نَزَلَ عَلٰی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ، فَأَیَّ ذٰلِکَ قَرَأْتُمْ أَصَبْتُمْ، فَلَا تُمَارُوْا فِی الْقُرْآنِ فَإِنَّ الْمِرَائَ فِیْہِ کُفْرٌ۔ رواہ الامام أحمد فی مسندہ وسندہ جید۔))[1] ’’سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے غلام ابوقیس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے قرآن کریم کی ایک آیت کی تلاوت کی تو عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ اس طرح تو نہیں ہے۔ آدمی نے کہا کہ مجھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح پڑھایا ہے۔ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اورمعاملہ پیش کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ قرآن سات لہجات میں نازل کیاگیا ہے،ان میں سے جس کے مطابق بھی پڑھو ٹھیک ہے۔ سنو! تم قرآن کریم میں جھگڑا مت کیا کرو، کیونکہ قرآن مجید میں جھگڑا کرنا کفر ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ نے اسے سند جید کے ساتھ نقل کیا ہے۔‘‘ امام ابوعبید رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’نتیجہ کے اعتبار سے اس حدیث میں کوئی اختلاف نہیں ہے، یہ اختلاف محض لفظی ہے، کیونکہ ایک آدمی نے ایک حرف پر قراء ت کی تو دوسرے نے اس کاانکار یااس سے اختلاف کیا، حالانکہ ان دونوں میں سے ہر ایک کی قراء ت اختلاف کے باوجود متلو اورمقروء تھی۔ تو جب کوئی شخص اپنے ساتھی کی ثابت شدہ اور غیر منسوخہ قراء ت کا انکار کرتا ہے، تو اس پر کفر اس لیے لازم آتا ہے کہ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل شدہ ایک قراء ت (حرف) کاانکار کردیا۔ ‘‘ اس حدیث کے بعض طرق میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ: ((فانَّ مُرَآئً فیہِ کُفْرٌ)) تو ان الفاظ
[1] مسند أحمد:۴ -۲۰۴.