کتاب: حجیت قراءات - صفحہ 66
اس حوالے سے امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’سیدناابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو شیطان نے اس لیے بہکانا چاہا تاکہ وہ ان پر ان کی حالت ِایمانی کو گڈمڈ کرسکے اورقراء ات کی اہمیت کو ان پر دھندلا کرسکے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ حالت دیکھی تو ان کے سینے پر ہاتھ مارا۔اللہ تعالیٰ نے ان کاسینہ روشن اورباطن روشنی سے منور فرمادیا،یہاں تک کہ وساوس کے تمام پردے چھٹ گئے اورقراء ات کے معارف کے متعلق آپ کا سینہ کھل گیا۔ جب ان کے لیے اس وسوسہ کی برائی ظاہر ہوئی تو ان پر اللہ کا خوف چھاگیا اوراللہ سے حیا کی وجہ سے ان کے پسینے چھوٹ گئے۔یہ وسوسہ ان وساوس کے قبیل سے تھا جن کے متعلق بسا اوقات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے تھے کہ ان کے دلوں میں ایسے وسوسے اٹھتے ہیں جنہیں دوسروں سے بیان کرتے ہوئے بھی وہ ڈرتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا کہ واقعی ایسے وسوسے پیداہوتے ہیں؟ تو صحابہ نے عرض کیا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ مضبوط ایمان کی نشانی ہے کیونکہ جہاں ایسا ایمان موجود ہو وہیں دشمن نقب لگانے کی کوشش کرتا ہے۔ ‘‘[1] حدیث کے الفاظ: ((فَلَمَّا رَاٰی رَسُوْلُ اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم مَا قَدْ غَشِیَنِیْ ضَرَبَ فِیْ صَدْرِیْ فَفِضْتُ عَرَقًا کَأَنَّمَا أَنْظُرُ إِلَی اللّٰه فَرَقاً۔)) کے متعلق قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مذموم وسوسے کو سیدناابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے چہرے سے جانچ لیا، تو ان کے سینے پر ہاتھ اس لیے ماراتاکہ وسوسہ دور ہوجائے۔ ’فَرَقًاالفَرَق سے ہے،جس کا معنی ہے: رعب، خوف اورگھبراہٹ۔‘‘[2] امام طیبی رحمہ اللہ شرح مشکوۃ المصابیح میں فرماتے ہیں: ’’حضرت ابی رضی اللہ عنہ ایمان و یقین میں کامل ترین صحابہ میں سے تھے۔ جب
[1] تفسیر قرطبی: ۱ -۴۹. [2] شرح صحیح مسلم:۶ -۳۴۳.