کتاب: حجیت قراءات - صفحہ 60
دیا۔ اس بات کی طرف معجم طبرانی میں موجود ایک حدیث اشارہ کرتی ہے جس میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کی ایسی قراء ت سنی جو ان کی قراء ت کے مخالف تھی، جھگڑا آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا تو مذکورہ آدمی نے کہا کہ یارسول اللہ! کیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی مجھے یہ قراء ت یوں نہیں پڑھائی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں۔اتنی بات کہنی تھی کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں وسوسہ پیدا ہوا، جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھانپ گئے، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سینے ہاتھ مارا اورفرمایا: ((اَللّٰھُمَّ أَبْعِدْ عَنْہُ الشَّیْطَانَ۔)) ’’ اے اللہ! عمرسے شیطان کو دور فرما۔‘‘ پھر فرمایا: ((أُنْزِلَ الْقُرْآنُ عَلٰی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ، کُلُّھَا شَافٍ کَافٍ۔))[1] ایک روایت میں شَافٍ کَافٍ کی جگہ ’’صوابٍ کہ یہ تمام لہجات حق ہیں‘‘ کے الفاظ ہیں۔ سبعۃ أحرف کے معنی کے متعلق باقی بحث اَحادیث کے بعد آئے گی۔ اِن شاء اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول: ((فاقرؤا ما تیسَّر منہ۔)) میں قرآن مجید کو سات لہجات میں نازل کرنے کی حکمت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اوروہ یہ ہے کہ اُمت محمدیہ پرآسانی اورتلاوتِ قرآن میں تخفیف ہو، جس کا مطلب ہے کہ تم میں سے ہر ایک کی زبان پر جو لہجہ آسان ہو، قراء ت کرتے وقت اس کی ادائیگی مشکل نہ ہو اور یہ کہ سمجھ و فہم میں کسی قسم کی مشکل پیش نہ آئے۔ فضیلۃ الشیخ علامہ عبد الفتاح القاضی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’کتب حدیث میں بسیار کوشش کے باوجود ہم عمر رضی اللہ عنہ اور ہشام رضی اللہ عنہ کے مابین سورۃ الفرقان میں ہونے والے اختلاف ِلہجہ پرمطلع نہیں ہوسکے کہ وہ اَحرف سبعہ میں سے کون سا لہجہ تھا۔‘‘ تیسری حدیث: (( عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ رضی اللّٰه عنہ أَنَّ النَّبِیَّ صلي اللّٰه عليه وسلم کَانَ عِنْدَ أَضَاۃِ
[1] النسائی: ۹۴۱.