کتاب: حجیت قراءات - صفحہ 59
کے مطابق کہا کہ وہ غلط پڑھ رہے ہیں۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خیال کے مطابق حضرت ہشام رضی اللہ عنہ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے، تو ہو سکتا تھا کہ انہوں نے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو اسے صحیح طرح سے یاد نہ رکھ سکے ہوں۔ ان کے برعکس حضرت عمر رضی اللہ عنہ پہلے اسلام لائے تھے، اسلام میں پختہ بھی تھے اور جتنا قرآن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، اسے زیادہ اچھی طرح یاد رکھنے والے اوراس میں زیادہ پختہ تھے ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تو سورۃ الفرقان آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت پہلے سن رکھی تھی۔پھر جو کچھ بعد میں نازل ہوا، وہ اسے نہیں سن سکے تھے۔ حضرت ہشام رضی اللہ عنہ تو فتح مکہ کے مسلمانوں میں سے تھے، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورت کو بعد میں نازل شدہ کے مطابق پڑھا۔ ان دونوں حضرات میں یہ بات اختلاف کا سبب بنی۔ ابتداً سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے انکار کو اسی بات پرمحمول کیاجانا چاہیے کہ انہیں اس واقعہ سے قبل حدیث (( أُنزلَ القرآنُ علیٰ سبعۃِ أحرفٍ۔))کا علم نہیں تھا، لہٰذا انہوں نے انکار کردیا۔‘‘[1] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول: ’’أَرْسِلْہُ‘‘ کامطلب تھا کہ اے عمر! ہشام رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیجئے۔ آپ نے ایسا اس لیے کیاتاکہ مدعی علیہ یعنی سیدنا ہشام رضی اللہ عنہ کی بات سنی جاسکے یا آپ نے اس وجہ سے کہاتھا کہ ہشام رضی اللہ عنہ سے بھینچے جانے کی تکلیف دور ہوجائے اوروہ بآسانی قراء ت کرسکیں۔ پھرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اس لیے سنا،کیونکہ امکان تھا کہ غلطی خود عمر رضی اللہ عنہ کی ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول: ((أُنْزِلَ الْقُرْآنُ عَلٰی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ۔)) میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دل کے لیے اطمینان، پختگی اوراس پروارد ہونے والے شبہات کا ازالہ تھا۔ یہ شبہات اس وقت پیدا ہوئے جب آپ نے عمر رضی اللہ عنہ اورہشام رضی اللہ عنہ میں سے ہر دو کی قراء ت کو درست قرار
[1] فتح الباری: ۱۱ -۳۱.