کتاب: حجیت قراءات - صفحہ 58
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول: ’’ فَلبَّبْتُہ بردآئہ‘‘ کا معنی ہے کہ ان کے گریبان سے کھینچتے وقت میں نے ان کی چادر کو ان کی گردن پرکس دیاتاکہ وہ بھاگ نہ سکیں۔ امام نووی رحمہ اللہ شرح مسلم میں فرماتے ہیں: ’’اس کا معنی ہے کہ میں نے انہی کی چادر کو ان کے گلے میں ڈالتے ہوئے انہیں پکڑا اوراسی چادر کے ساتھ انہیں کھینچتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک لے آیا۔ یہ لفظ اللَّبَّۃ لام کے فتح کے ساتھ ہے، جو گلے کے لیے بولا جاتاہے، کیونکہ چادر وغیرہ اسی جگہ لٹکائی جاتی ہے۔ اس سارے معاملہ میں صحابہ رضی اللہ عنہم کا قرآن مجید کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے گئے الفاظ کااہتمام ، ان کی حفاظت اوردفاع کازبردست اہتمام واضح ہوتا ہے۔‘‘ [1] سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سخت طبیعت کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ أمر بالمعروف ونہی عن المنکر کے معاملہ میں انتہائی شدید تھے،جو سیدنا ہشام رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کے سلوک سے واضح ہے۔ انہوں نے ایسا اس لیے کیا کہ ان کے غالب گمان کے مطابق ہشام رضی اللہ عنہ غلط پڑھ رہے تھے اور یہ کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھنے کے بجائے خود ہی قراء ت وضع کرلی تھی۔ چونکہ یہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا اپنا اجتہاد تھا، لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ہشام رضی اللہ عنہ کے ساتھ درپیش معاملہ پر نہ تو ان کا مواخذہ کیا اورنہ ہی انہیں ڈانٹا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا سیدنا ہشام رضی اللہ عنہ سے کہنا ’’ کَذَبْتَ‘‘ یعنی تونے جھوٹ بولا ہے، اس بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری شرح بخاری میں فرماتے ہیں: ’’انہوں نے ظن غالب کی بنا پر یہ لفظ مطلقاکہاتھا یا ’’کَذَبْتَ‘‘سے ان کی مراد أَخْطَأْتَ ہے یعنی تو نے غلط پڑھا۔ اہل حجاز خطا پرجھوٹ کا اطلاق کرتے ہیں۔‘‘ [2] حضرت عمر رضی اللہ عنہ کاکہنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تو ایسے نہیں پڑھایا، دراصل حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ظن ِ غالب سے استدلال کرتے ہوئے کہا اور سیدنا ہشام رضی اللہ عنہ کو اپنے علم
[1] شرح مسلم: ۶ -۳۴۰. [2] فتح الباری: ۱۱ -۳۱.