کتاب: حجیت قراءات - صفحہ 49
زندگی کی رمق یا سانس باقی ہے۔ یہ چند حسرت بھرے کلمات ایک زخمی دل کی آواز ہیں۔ اس مضمون (مکانۃ القراء ات عند المسلمین ونظریۃ المستشرقین والملحدین حولھا)میں میں نے جمع وترتیب کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا ہے اور طوالت کی بجائے حتیٰ الامکان اختصار سے کام لیا ہے اور بعض ضروری امور حواشی میں درج کردئیے ہیں تاکہ طالب علم کے لئے استفادہ کرنا آسان رہے۔ اگرمیں نے اپنا مقصود پورا کردیا ہے تو یہ اللہ کے توفیق اور فضل سے ہے، اور اگر اس میں کوئی کمی کوتاہی رہ گئی ہے تو میری طرف سے ہے۔ امام عماد الاصفہانی lفرماتے ہیں: ’’کوئی بھی انسان جب کوئی کتاب لکھتا ہے تو اگلے روز اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اگر یہ ایسے ہوتی تو زیادہ بہتر ہوتا ،اگر وہ یہ اضافہ بھی کردیتا تو اچھا تھا، اگر وہ یہ چیز مقدم کر دیتا تو خوبصورت ہوتا اور اگر یہ چیز چھوڑ دیتا تو زیادہ افضل ہوتا۔یہ بہت بڑی عبرت کی بات ہے اور اس امر پر دلیل ہے کہ انسانی امور میں کمی کوتاہی رہ ہی جاتی ہے۔‘‘ میں اپنی بات کااختتام امام شاطبی رحمہ اللہ کے ان اشعار کے ساتھ کرتاہوں: وَقَدْ وَفقَ اللّٰهُ الکَرِیمُ بِمَنِّہِ لإِکْمَالِہَا حَسْنَائَ مَیْمُونَۃَ الْجِلَا وَتَمَّتْ بِحَمْدِ اللّٰهِ فِی الْخَلْقِ سَہْلَۃً مُنَزَّہَۃً عَنْ مَنْطِقِ الْہُجْرِ مِقْوَلَا وَلَیْسَ لَہَا إِلاَّ ذُنُوبُ وَلِیِّہَا فَیَا طَیِّبَ الأَنْفَاسِ أَحْسِنْ تَأَوُّلَا