کتاب: حجیت قراءات - صفحہ 48
ہم کیا کریں؟ کیا قراء ات قرآنیہ پر طعن کی صورت میں خاموشی جائز ہے؟ کیا ہمیں خوش اخلاقی کامظاہرہ کرتے ہوئے ناقدین قراء ات کی آراء کو قبول کرلیناچاہئے یا اپنی قوت، استطاعت، دلیل اور موجود اسباب و وسائل کے ساتھ قرآن مجید کادفاع کرناچاہئے؟ کیا کسی غیرت مند مسلمان کے لئے یہ طرزِ عمل صحیح ہے کہ وہ اپنے دین اور مقدس کتاب پر طعن کے باوجود خاموش رہے؟ ہرگز نہیں، کبھی بھی نہیں، یہ قطعاً جائز نہیں ہے۔ قراء ات قرآنیہ پرطعن کی صورت میں خاموش رہنا کسی طور بھی صحیح نہیں ہے، بلکہ ہرمسلمان پر فرض ہے کہ وہ کتاب اللہ کا حتی الامکان دفاع کرے اور ادھر ادھر سے آنے والے نظریات کے سامنے نہ تو اپنی کوشش ترک کرے اورنہ ہی ان کے مقابلے میں سستی کامظاہرہ کرے۔ بالفرض اگر ہم اس فرض کی ادائیگی کے لئے کھڑے نہیں ہوتے اور قراء ات قرآنیہ پر کئے گئے طعن کو تسلیم کرلیتے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ہم وہ قراء ات کہاں سے لائیں گے کہ جس کے بارے میں تمام لوگوں کایہ عقیدہ ہو کہ یہی وہ مقدس قراء ت ہے، جو اللہ رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہے؟ یہ بڑی ہی عجیب بات ہوگی کہ ہم ایک ایسی چیز کوتسلیم کرلیں جس کی حقیقت کچھ بھی نہیں ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ عجیب بات تو یہ ہے کہ بعض لوگ دفاع قراء ات کی فکر کے خلاف ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ عملا یہ سب ہو رہا ہے۔ لیکن ہمیں کیاکرنا چاہئے؟ کیا ہم اس سرکش اور تباہی مچانے والے ہجوم میں کمزور اور مسکین بن کر خاموش ہوجائیں؟ ہرگز نہیں، ہم اللہ کی توفیق سے ان لوگوں کے ساتھ جہاد اور مجادلہ کریں گے اور قرآن اور قراء ات متواترہ محمدیہ کااس وقت تک دفاع کریں گے جب تک کہ ہمارے اندر