کتاب: حجیت قراءات - صفحہ 46
کاایک حرف بھی زبانی یاد نہ کیا ہو۔ ہرمسلمان پر فرض ہے کہ وہ اللہ کے دین کو اختیارکرے اور اس بات پر پختہ یقین رکھے کہ جن قراء ات کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے وہ سب متواتر ہیں اور یقینی طور پرمعلوم ہیں،ظن اور شکوک و شبہات ان سے کوسوں دور ہیں۔واللہ اعلم‘‘[1] امام ابن عطیہ اندلسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ قراء ات سبعہ ، بلکہ عشرہ کئی زمانوں سے کئی شہروں میں رائج ہیں اور ان کے ساتھ نمازیں پڑھی جاتی ہیں، کیونکہ یہ اجماع سے ثابت ہیں۔‘‘[2] علامہ ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ہر وہ قراء ت جو مطلق طور پرعربی زبان کے موافق ہو ، مصاحف عثمانیہ میں سے کسی ایک مصحف کے رسم کے مطابق ہو، یہ مطابقت خواہ تقدیراً ہی کیوں نہ ہو اور تواتر سے منقول ہو وہ قراء ت متواترہ ہو گی جو قطعی طور پرثابت ہے۔‘‘ علامہ ابن جزری رحمہ اللہ کے اوپر بیان کردہ تینوں ارکان ہمارے زمانے میں پائی جانے والی قراء ات عشرہ(یعنی امام ابوجعفر، امام نافع، امام ابن کثیر، امام ابوعمرو، امام یعقوب، امام ابن عامر، امام عاصم، امام حمزۃ، امام کسائی اور امام خلف رحمہم اللہ کی قراء ات) میں بدرجہ اتم موجود ہیں،اور ان قراء ات عشرہ کو لوگوں کی جانب سے تلقی بالقبول حاصل ہے۔ جنہیں متاخرین نے متقدمین سے حاصل کیا یہاں تک کہ وہ نسل در نسل منتقل ہوتے ہوئے ہمارے زمانے تک پہنچ گئی ہیں۔ ان میں سے کسی ایک قراء ت کی تلاوت باقی قراء ات کی تلاوت کی مانند ہے جو قطعی طور پر ثابت ہے۔ اس کے بعد علامہ ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’جو قراء ات آج ہم تک تواتر، صحت سند، قطعیت،اجماع، بلا اختلاف اور
[1] منجد المقرئین:۵۱. [2] القراء ات فی نظر المستشرقین والملحدین:۹۳.