کتاب: حجیت قراءات - صفحہ 43
کا انکار کرتے ہوئے یہ دعوی کر دیا کہ بلاد مشرق میں رائج روایت حفص عن عاصم کے علاوہ کوئی دوسری روایت ثابت نہیں ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ ’’فقط روایت حفص ہی قرآن مجیدکی متواتر قراء ت ہے،جبکہ باقی قراء ات قراء کرام کی جانب سے گھڑ لی گئی ہیں۔‘‘ یہاں تک کہ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ ’’ قراء ات سبعہ کا وحی الہی کے ساتھ کوئی تھوڑا بہت بھی تعلق نہیں ہے اور ان کا منکرنہ تو کافرہوتا ہے اور نہ ہی فاسق اورنہ ہی اس کی دینداری پر کوئی انگلی اٹھائی جائے گی ۔ کیونکہ قراء ات دراصل مختلف قبائل کے لہجات اور ان کے اختلاف کی وجہ سے بنی ہیں۔ ‘‘[1] لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بعض مخلص علماء نے بھی علوم قرآن و علوم قراء ات کا مطالعہ کئے بغیر مستشرقین کے باطل نظریات پر اعتماد کر کے یہ بات کہنا شروع کر دی ہے کہ’’ روایت حفص عن عاصم ہی وہ روایت ہے جسے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے باقی رکھا تھا اور یہی قرآن مجید کی صحیح قراء ت ہے۔‘‘(معاذ اللہ) مَا یَکُوْنُ لَنَا اَنْ نَّتَکَلَّمَ بِھٰذَا سُبْحَانَکَ ھٰذَا بُھْتَانٌ عَظِیْمٌ۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ قراء ات قرآنیہ میں سے کوئی ایک قراء ت بھی ایسی نہیں ہے، جس پرمعترضین کی جانب سے طعن نہ کیا گیاہو، یا اس پرجرح نہ ہوئی ہو، یا اس کے بارے میں کسی قسم کا کوئی بحث مباحثہ نہ ہواہو۔ اور اگرہم معترضین کی جرح و طعن کو اس کی قبولیت یاعدم قبولیت کا معیار بنالیں توپھر کوئی بھی قراء ت ثابت نہ ہوگی، چاہے وہ صحت ،وثوق اور تواتر کے بلند ترین درجے پر ہی کیوں نہ ہو۔ میں آپ حضرات کے سامنے چند معاصر علماء کے وہ اعداد وشمار بیان کررہا ہوں، جو اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ بغیر کسی استثناء کے تمام قراء ات سبعہ پر طعن کیا گیا ہے اور ان میں غلطیاں نکالی گئیں۔فضیلۃ الشیخ عضیمہ اس بات کو بیان کرنے کے لئے (القراء السبعۃ ونصیب کل منھم فی تلحین قراء اتہ) ’’قراء سبعہ اور ان کی قراء ات میں سے
[1] یہ بات ڈاکٹر طہ حسین نے اپنی کتاب ’’الادب الجاھلی‘‘ میں لکھی ہے۔دیکھیں: القراء ات القرآنیہ از ڈاکٹر عبد الھادی فضلی:۸۴.