کتاب: حجیت قراءات - صفحہ 41
(تجری تحتھا الانھار) ہے۔ امام ابن عاشر الاندلسی رحمہ اللہ ’الاعلان‘میں فرماتے ہیں: ((وَمِنْ مَعْ تَحْتِھَا آخِرَ تَوْبَۃٍ یَعْنِ لِلْمَکِّ۔)) ’’اور سورہ توبہ کے آخر میں (تحتھا) کے ساتھ (من) کومکی کے لئے متعین کر دے۔‘‘ امام شاطبی رحمہ اللہ ’شاطبیہ ‘ میں فرماتے ہیں: ((وَمِنْ تَحْتِھَا الْمَکِّیُّ یَجُرُّ وَزَادَ مِنْ۔)) ’’اور (من تحتھا) میں امام ابن کثیر مکی جر دے کر (من) کو زیادہ کرتے ہیں ۔‘‘ ۲۔ آیت مبارکہ ﴿وَ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا﴾ (التوبۃ: ۱۰۷) اہل مدینہ اوراہل شام کے مصاحف میں (الذین) بغیرواؤ کے مکتوب ہے اور امام نافع رحمہ اللہ اورامام ابن عامر شامی رحمہ اللہ کی قراء ت بھی اسی کے مطابق (الذین)ہے۔جبکہ باقی مصاحف میں (والذین)واؤ کے ساتھ مکتوب ہے اورباقی تمام قراء سبعہ کی قراء ت بھی اسی کے مطابق (والذین)ہے۔ امام ابن عاشر الاندلسی رحمہ اللہ ’الاعلان‘میں فرماتے ہیں: ((وَالَّذِیْنَ بَعْدَ الْمَدَنِیْ وَالشَّامِ لَا وَاوَ بِھَا فَاسْتَبِنْ۔)) ’’اور (والذین) مدنی اور شامی مصحف میں واؤ کے بغیر مکتوب ہے، اس کو واضح کر لیں ۔‘‘ امام شاطبی رحمہ اللہ ’شاطبیہ ‘ میں فرماتے ہیں: ((وَعَمَّ بِلَا وَاوَ الَّذِیْنَ۔)) ’’اور (الذین) امام نافع اور امام شامی کے لئے بغیر واو کے ہے ۔‘‘ ہم اتنی ہی مثالوں پراکتفا کرتے ہیں۔یہاں ہم نے اہل حجاز ، اہل عراق اوراہل شام کے مصاحف میں موجود باہمی اختلافات کے چند نمونے پیش کئے ہیں، حالانکہ کتب قراء ت اور بالخصوص رسم الخط کی کتابوں میں اس قسم کی مثالیں بکثرت موجود ہیں۔