کتاب: حجیت قراءات - صفحہ 33
اوپر جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ خلیفہ عثمان رضی اللہ عنہ نے جن مصاحف کی کتابت کا حکم دیا تھا، ان میں بہت زیادہ مقامات پر رسم کا اختلاف تھا، تاکہ ان مقامات پر قراء ات کا اختلاف معلوم ہوسکے۔جیسا کہ قراء ات اور رسم القرآن کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔ بلکہ رسم کا یہ اختلاف مختلف مصاحف میں بہت کم مقامات پر تھا۔جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ اگر حضرت عثمان نے قرآن کی ایک نص پر لوگوں کو جمع کرنے کا ارادہ کیا ہوتا، تو تمام مصاحف کو ایک ہی صورت میں لکھا جاتا اور ان میں کسی قسم کا بھی اختلاف نہ ہوتا، لیکن مصاحف عثمانیہ کی مختلف صورتوں اور متعدد کیفیات میں کتابت اس با ت کی واضح دلیل ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک نص کے حصول کا ارادہ نہ کیا تھا بلکہ ان کا اصل مقصود لوگوں کو غیر متواتر قراء ات کے بالمقابل متواتر قراء ات پر جمع کرنا تھا۔ جب یہ بات واضح ہوگئی تو اب کسی کو بھی پروپیگنڈا کرنے والوں کی یہ بات پریشان نہ کرے کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں میں قراء ات کے اختلافات محسوس کئے تو ان کو ایک مصحف پر جمع کردیا اور وہ مصحف وہی ہے جو بلادِمشرق میں پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ بعض متجددین کہتے ہیں۔ یاد رہے کہ بلادِ مشرق، مشرق میں موجود مسلمان ممالک کوکہتے ہیں اور مسلمانوں کا بلادِ مغرب پانچ ممالک پر مشتمل ہے۔ تیونس، الجزائر، مراکش، لیبیا اور موریطانیہ) ان لوگوں کا یہ قول سلف و خلف میں سے کسی ایک سے بھی ثابت نہیں ہے اور اس قول کے قائلین کے پاس دلیل تو کجا اس سے مشابہ عقل و نقل کی بھی کوئی چیز ایسی نہیں ہے، جس کو وہ اس قول کی بنیاد بنا سکیں، بلکہ یہ من گھڑت باتوں کی طرح ایک بات ہے اور ایسے لوگوں کا قول ہے، جو قرآن، علوم قرآن اور قراء ات قرآنیہ سے بالکل جاہل اور ناواقف لوگ ہیں۔ یہاں ہم بعض ایسے مقامات ذکر کریں گے، جن میں اہل حجاز ، عراق اورشام کے مصاحف میں اختلاف واقع ہوا ہے۔