کتاب: حجیت قراءات - صفحہ 29
عقل آجائے تو یہ جان لیں گے کہ ان کی اس رائے کا کوئی نتیجہ یا مقصد نہیں ہے۔ عقل و منطق تو اس بات کی متقاضی ہے کہ قرآن جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا، اسی طرح یہ مسلمانوں سے قراء ات کی مختلف وجوہات کے ساتھ آگے منتقل ہوا ہے۔ گولڈ زیہر یہودی کا یہ کہنا بھی خلافِ عقل ہے کہ ’’قرآن کے لئے لازم ہے کہ وہ ایک ہی لفظ اور ایک ہی حرکت پر مشتمل ہو‘‘۔ اور اس کا کہنا کہ ’’قرآن کے پڑھنے کا ایک انداز بعد کے زمانوں میں غیر معین اور غیر معروف پڑھنے کے مختلف اندازوں میں تبدیل ہوگیا۔‘‘ مزید یہ کہ ’’قرآن ان وجوہاتِ قراء ات پر نازل نہ ہوا تھا۔ مسلمانوں نے رسم کے مطابق قراء ات اپنی مرضی سے ایجاد کرلیں اور یہ قراء ات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل نہیں کی گئیں اور نہ ہی ان کی صحت یا ان کے پڑھنے اور آگے پہنچانے کا حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔‘‘ گویامستشرقین اور ان کے متبعین کے نظریہ کے مطابق یہ تمام کی تمام قراء ات قرآن کے ساتھ نازل نہیں ہوئی ہیں،بلکہ قرآن ایک ہی قراء ت پر نازل ہوا تھا جو کہ غیر معین تھی جسے نہ مسلمان جانتے ہیں اور نہ ہی مستشرقین۔ اللہ کی پناہ کہ معاملہ ایسا ہی ہو…جیساکہ مستشرقین کا کہنا ہے… ہم اللہ کے بارے میں ایسی بات نہیں کہتے کیونکہ وہ اس سے پاک ہے اور یہ اس پربہت بڑا بہتان ہے۔[1] تمام مسلمانوں کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے جو مصاحف مختلف شہروں کی طرف بھیجے تھے، وہ چھ تھے۔[2] مصحف امام : یہ وہ مصحف ہے جسے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے پاس رکھ لیا تھا اوراسی سے امام ابوعبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں۔
[1] تہذیب من کتاب:الکتاب والسنۃ یجب ان یکونا مصدر القوانین فی مصر للعلامۃ احمد محمد شاکر: ۷۸ تا ۸۱. [2] صحیح قول کے مطابق (تاریخ المصحف الشریف للشیخ عبد الفتاح القاضی:۵۹.