کتاب: حجیت قراءات - صفحہ 27
قرآن اور ان قراء ات کو واضح اور قطعی تواتر کے ساتھ نقل کیا۔ پس مستشرقین کا یہ کہنا کہ رسم پہلے ہے اور قراء ات اس کے تابع ہیں،ایک گمانِ باطل ہے، جس کی کوئی دلیل ان کے پا س موجود نہیں ہے، جبکہ مسلمانوں کے نزدیک قراء ات پہلے اور رسم ان قراء ات کے تابع ہے، یہ اصول تاریخی حقائق سے زیادہ حقیقی اور یقینی طو رپر ثابت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر آج تک تمام مسلمانوں کا یہی یقین رہا ہے کہ رسم، قراء ات کے تابع ہے کیونکہ اس کے علاوہ عقلاً بھی کوئی قول درست نہیں ہے اور نقلی دلائل بھی اس بات کے متقاضی ہیں کہ اسی قول کو درست قرار دیا جائے۔ مسلمان اہل ِ علم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور علماء و ائمہ قراء ات کے متعلق مستشرقین کی نسبت زیادہ واقفیت رکھتے ہیں کہ جنہوں نے ان تک علم دین اور قرآن کو نقل کیا ہے۔ لہٰذا وہ ان کے بارے میں جھوٹ اور افتراء پردازی کا بُرا گمان نہیں کرسکتے۔ قراء ات کی کتنی ہی مطبوعہ اور غیرمطبوعہ کتب (مخطوطات) اور ان کے مطابق قرآن کو پڑھنے والے بے شمار قراء دنیا کے کونے کونے میں موجود ہیں۔ ان میں سے ہر ایک اسناد ِ قراء ات کو ثقہ راویوں کے واسطے سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتا ہے[1] اور یہ قراء اپنی صداقت، امانت اور تقویٰ میں اتنے معروف ہیں کہ ان پر کوئی طعن یا الزام نہیں لگایا جاسکتا۔
[1] جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کے رواۃ اور ان کی اسانید ہیں، اسی طرح علم قراء ات کے بھی رواۃ اور اسانید ہیں، لیکن یہ روایات اور اسانید ہمارے زمانے میں لوگوں میں اس طرح مشہور نہیں ہیں جس طرح احادیث کی روایات اور اسانید معروف ہیں۔ اوران کے لوگوں میں معروف نہ ہونے کی کئی وجوہات ہیں: ۱۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ قراء ات کی اسناد کو مخصوص لوگوں کی ایک جماعت ہی جانتی ہے عوام الناس ان سے ناواقف ہیں۔لیکن احادیث کی اسانید کو مخصوص اہل علم کے ساتھ ساتھ عوام بھی کچھ نہ کچھ جانتے ہیں۔کیونکہ واعظین، خطباء اور دعاۃ اکثر اوقات اپنے وعظ، تقریر یا خطبے میں ان اسانید یا ان کی صحت و ضعف کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں، جس سے عام عوام الناس کو احادیث کی سند کے بارے میں کچھ نہ کچھ علم حاصل ہوتا رہتا ہے، جبکہ قراء ات کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ ۲۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ امام شاطبیؒ نے اپنی منظوم کتاب ’’حرزالامانی‘‘ اور ابن الجزریؒ نے ’’طیبۃ النشر‘‘میں متواتر قراء ات کی اسانید اور طرق کے بغیر ان کو جمع کردیاہے۔ تاکہ ان کو یاد کرنے میں طلبہ کے لئے آسانی ہو اور ان کی تلاوت باعث عبادت ہو۔ پس شاطبیہ، درۃ اور طیبۃ جیسی کتابوں سے بغیر اسانید کے بھی قراء ات متواترہ کا حصول تو آسان ہو گیا ،لیکن قراء کی ایک بڑی جماعت اسانید قراء ات سے ناواقف رہی جو کہ ابن الجزریؒ کی کتاب ’’النشر‘‘ وغیرہ میں موجود ہیں۔ ۳۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں اصل شرط متخصص شیوخ سے تلقی اور اور مشافہت ہے، صرف مصحف سے قراء ت پر اعتماد نہیں کیا جاتا ہے۔ یہ شرط صرف علم قراء ات میں ہی پائی جاتی ہے، جبکہ دیگر علوم مثلاً حدیث وغیرہ میں تلقی عن الشیوخ کی شرط نہیں ہے۔ (بلکہ حدیث میں تلقی کی بجائے تحمل ہوتا ہے۔ تلقی اور تحمل میں بہت فرق ہے۔ تلقی میں الفاظ کی ادائیگی کے مختلف طریقے، تلفظ، لہجات، تجوید ِ الفاظ وغیرہ شامل ہیں،جبکہ تحمل میں مجرد ایک شخص اپنے شیخ سے احادیث سن کر آگے بیان کردیتا ہے۔) اور مقری، طالب علم کو قراء ت بار بار سنا کر اس کے ذہن میں بٹھاتا اور اس کے لئے ان کی اسانید کی معرفت آسان بنا دیتا ہے اگر وہ طیبہ کے طریق سے ہوں۔ ۴۔ چوتھی وجہ یہ ہے کہ علامہ ابن الجزریؒ کے زمانے کے بعد اسانید قراء ات میں بحث موقوف ہو گئی ہے۔ چنانچہ کسی کے لئے بھی یہ جائزنہیں ہے کہ وہ ’’طیبہ‘‘کے مصادر میں سے کسی مصدر مثلاً ’’التیسیر‘‘ اور ’’المنہج‘‘ میں سے کوئی ایسی قراء ت پڑھے جو اپنی سند کے ساتھ ’’النشر‘‘ میں موجود نہ ہو۔اس کے برعکس حدیث کی اسانید میں بحث مسلسل جاری ہے۔اب بھی متعدد ایسی احادیث موجود ہیں جن کی صحت اور ضعف کو واضح کیا جانا باقی ہے۔ اسانید کے مشہور نہ ہونے کی وجہ سے بعض جہلاء قراء ات قرآنیہ میں شکوک وشبہات پیدا کرنے لگ جاتے ہیں۔لیکن اللہ تعالی ان لوگوں سے اس کتاب کی حفاظت کرنے والا ہے۔(یہ اسباب میرے استاد محترم فضیلۃ الشیخ عبد الرازق نے اپنی کتاب فتح الرحمانی شرح کنز المعانی کی تحقیق کے مقدمے میں نقل کئے ہیں۔).