کتاب: حجیت قراءات - صفحہ 25
بنایا گیا تاکہ تمام قراء ات اس رسم میں سما جائیں اور کوئی بھی قراء ت باقی نہ رہے۔ مستشرقین اور ان سے مرعوب بعض نام نہاد مسلمانوں کا گمان ہے کہ جس قرآن مجید کو حضرت جبرئیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر لے کرنازل ہوئے، اس کے لئے ضروری تھا کہ وہ ایک ہی حرکت اور ایک ہی لفظ کی صورت میں ہوتا۔[1] چونکہ شروع شروع میں رسم عثمانی میں نقطے اور حرکات نہیں تھیں۔ لہٰذا ہر قاری نے اپنی خواہش اور مرضی سے رسم عثمانی پر حرکات اور نقطے لگا لئے جو کہ بعد میں قراء ات بن گئیں۔[2]
[1] یہ گولڈ زیہر کا قول ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے. [2] یہ گولڈکہ کا قول ہے، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ان دونوں کے اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن اور قراء ات دونوں الگ الگ شے ہیں۔ قرآن وہ ہے جسے فرشتہ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا ہے، جو ایک حرکت اور ایک ہی لفظ میں تھا۔ جبکہ قراء ات سے مراد وہ وجوہ ہیں جن کا لکھے ہوئے رسم عثمانی میں احتمال موجود تھا، ہر قاری اپنی استطاعت اور رائے کے مطابق ان قراء ات کو مختلف شکلیں دے دیتا تھا۔ یہ قرا ء ات اللہ کی طرف سے نازل شدہ نہیں تھیں۔ دوسرے الفاظ میں قرآن کی کچھ قراء ات اصل ہیں اور کچھ فرعی ہیں۔ اصلی قراء ات وہ ہیں جو اللہ کی طرف سے ایک ہی حرکت اورلفظ پر نازل ہوئیں اور فرعی قراء ات، وہ احتمالی قراء ات ہیں کہ جن کا احتمال رسم عثمانی کے نقاط اور حرکات سے خالی ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتا تھا۔ نیز یہ کہ قراء ات اللہ کی طرف سے نازل شدہ نہیں ہیں۔ اس قسم کا قول متجددین میں سے ایک شخص کا بھی ہے جو اپنے آپ کو فکر ِاصلاحی کا نمائندہ تصور کرتا ہے اس شخص کا کہناہے کہ قرآن مجیدکا متن ہم تک محفوظ طریقے سے پہنچا ہے، لیکن اس کی قراء ات میں اختلاف ہے گویا کہ اس کے نزدیک قرآن کا متن محفوظ ہے، جبکہ قراء ات قرآن کے علاوہ کوئی غیر محفوظ چیزہیں۔ قراء ات کی ایسی تقسیم کی طرف سلف و خلف میں سے کوئی بھی عالم نہیں گیا اور اس قسم کی تقسیم کی ان کے پاس عقل و نقل سے کوئی سند یا دلیل بھی موجود نہیں ہے۔ جس بات پر محققین علماء کا اتفاق ہے وہ یہ ہے کہ جو قرا ء ات تواتر سے ثابت ہوں،انہیں قبول کیا جائے گا اور وہ قطعی طور پر قرآن شمار ہوں گی اور جو قراء ات اخبارِ آحاد سے ثابت ہوں، لیکن قراء کے ہاں معروف ہوں اور انہیں تلقی بالقبول حاصل ہو تو ایسی قراء ا ت کوبھی قبول کیا جائے گا اور قرآن شمار کیا جائے گا اور جو اخبار آحاد سے نقل ہوں، لیکن وہ قراء میں معروف نہ ہوں یا انہیں تلقی بالقبول حاصل نہ ہو تو ایسی قراء ات کو رد کردیا جائے گا اور اس پر شذوذ کا حکم لگایا جائے گا اور انہیں بطورِ قرآن نہیں پڑھا جائے گا۔ پس فکر ِاصلاحی کے نمائندے کا یہ دعویٰ کہ قرآن اور قراء ات دو علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں، ایک محفوظ ہے اور دوسری غیر محفوظ ہے، ایک ایسا دعویٰ ہے کہ جس کی کوئی بھی دلیل ان کے پاس موجود نہیں ہے اور نہ ہی علمائے قراء ات میں سے کسی سے قراء ات کی یہ تقسیم منقول ہے۔ (بلکہ علمائے قراء ات کی تقسیم وہ ہے جو اوپر بیان ہوچکی ہے).