کتاب: حجیت قراءات - صفحہ 24
خاص بات: یہ بات عام و خاص سب پر عیاں ہے کہ قرآن مجید ہم تک قطعی الثبوت تواتر کے ذریعے نقل کیا گیاہے، جو مصاحف میں بھی لکھا ہوا ہے۔[1] اسی طرح قرآن مجید کی متواتر قراء ات بھی قرآن کے رسم کے مطابق ہم تک قطعی الثبوت تواتر کے ذریعے منقول ہیں یا بعض قراء ات ایسی بھی ہیں کہ جو اگرچہ متواتر تو نہیں ہیں، لیکن صحیح سند کے ساتھ ثقہ راویوں سے منقول ہیں اور قراء کے مابین معروف و مشہور ہیں۔ ایسی قراء ات بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں کہ جن میں تواتر کی شرط پوری نہ ہورہی ہو، یہ قراء ات بھی براہ راست سماعت سے ہم تک پہنچی ہیں اور ان کی ادائیگی کے مختلف طریقے اور تلفظ کی وضاحت بھی براہ راست سماعت سے منقول ہے۔[2] اُمت مسلمہ اور مستشرقین کے درمیان اصل اختلاف مستشرقین کا وہم ہے کہ رسم پہلے سے ثابت شدہ تھی اور اس میں بہت سی قراء ات کا احتمال تھا۔ مسلمان قراء نے اپنی خواہش اور استطاعت کے مطابق اس رسم سے قراء ات نکال لیں جبکہ اُمت مسلمہ کے نزدیک قراء ات اصل ہیں پھر ان قراء ات کی ادائیگی کے لئے رسم
[1] یہ عربی رسم الخط معروف ہے۔ اس رسم الخط کو حفاظ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تمام صحابہ کی نگرانی میں لکھا ہے۔ اس رسم الخط کے محدود اور مفصل طرق کتب ِقراء ات، خاص طور پر رسم القرآن کی کتابوں میں جمع کئے گئے ہیں. [2] کتب تفسیر اور کتب حدیث مثلا صحیح بخاری میں جو بعض صحابہ سے مصاحف عثمانیہ کے رسم کے خلاف چند قراء ات منقول ہیں، ان میں سے جن روایات کی سند صحیح ہے وہ قرا ء ات درحقیقت اس آیت کی تفسیر ہیں اور ان کی بطور قرآن تلاوت کرناجائز نہیں ہے، کیونکہ قرآن مجید کے ثبوت کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ مصاحف کے رسم کے مطابق ہو۔ یہ امر اسلام کے بدیہی امور اور ضروریات دین میں سے ہے۔( یہ بات علامہ احمد شاکر نے اپنی کتاب ’’الکتاب والسنۃ یجب ان یکونا……الخ‘‘ کے حاشیے پر لکھی ہے:ص۷۴).