کتاب: حجیت قراءات - صفحہ 23
قرآن مجید اور قراء ات قرآنیہ کے بارے میں مستشرقین کا نقطۂ نظر:
مستشرقین کا خیال ہے کہ تمام علمائے اسلام اور قراء کرام جھوٹے اور افترا پرداز ہیں، جنہوں نے رسم عثمانی سے ہر وہ قراء ت اور روایت نکال لی ہے، جس کا اس کے رسم سے نکلنے کا احتمال تھا۔
مستشرقین کا اولین مقصود یہ ہے کہ وہ کسی طرح اللہ کی محفوظ کتاب قرآن مجید کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کردیں اور اللہ کے اس وعدے کو جھوٹا ثابت کردیں جو اس نے قرآن مجید کی حفاظت کے حوالے سے اپنے ذمہ لیا ہے اور قرآن کی آیت مبارکہ ﴿لَا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ﴾ (حٰمٓ السجدۃ: ۴۲) ’’باطل اس قرآن کے نہ آگے سے آسکتا ہے نہ پیچھے سے‘‘ کو جھٹلادیں۔ نیز وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ جیسے ان کی کتابوں کے بارے میں ان پر مسلمانوں کی طرف سے یہ تہمت لگائی جاتی ہے کہ انہوں نے اپنی کتابوں کو تبدیل کردیا ہے وہ یہی الزام مسلمانوں پر بھی ان کی کتابوں کے بارے میں لگائیں۔[1]
[1] قراء ات کے بارے میں مستشرقین کا نظریہ کیا ہے؟ اس کو گولڈزیہر نے اپنی کتاب ’’المذاہب الاسلامیہ فی تفسیر القرآن‘‘ میں واضح کیا ہے۔ جس کا عربی ترجمہ جناب استاذ الشیخ علی حسن عبدالقادر نے کیا ہے۔ گولڈ زیہر(ص ۳، ۴) لکھتا ہے: یہ مختلف قراء ات مصحف عثمانی کے گرد گھومتی ہیں اور یہ وہ مصحف ہے جس پر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو جمع کیا تھا۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ارادہ تھا کہ کلام اللہ کی حرکات اور اس کے مختلف استعمالات میں جو خطرہ پیدا ہوسکتا تھا اس کو دور کردیا جائے۔ کیونکہ مسلمانوں نے قرآن کی قراء ات میں بہت سستی کا مظاہرہ کیا تھا اور ان سب قراء ات کو مسلمان برابری کا درجہ دیتے تھے۔ باوجودیکہ ان میں سے صرف چند ایک ایسی تھیں جن کو فرض کیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کو ایک ایک کلمہ اور ایک ایک حرف کی شکل میں نازل کیا تھا اور اس طرح کا کلام یعنی ایک کلمے اور حرف کے ساتھ لوحِ محفوظ میں بھی تھا اور اسی طرح مبارک فرشتہ جس قرآن کو لے کر نازل ہوا اس کے لیے لازم ہے کہ وہ ایک حرکت اور ایک ہی لفظ پر مشتمل ہو اور اس موضوع پر گولڈ نے اپنی کتاب ’’تاریخ القرآن‘‘ میں مفصل بحث کی ہے۔ وہ کہتا ہے، ان قراء ات کی بڑی قسم کا اصل سبب عربی رسم الخط ہے۔ کیونکہ اس رسم الخط کی خصوصیت یہ ہے کہ ایک کلمے کا ایک ہی رسم حروف کے اوپر نیچے نقاط کے اعتبار سے مختلف حرکات کے ساتھ پڑھا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ نحوی اعراب اور کلمے کی دوسری حرکات کے نہ ہونے کی وجہ سے عربی خط میں یہ بات ممکن ہے کہ کسی کلمہ کی مختلف حالتیں اس کے مختلف اعراب کے لحاظ سے بنا دی جائیں یہ تمام کام کتابی رسم کی تکمیلات میں حرکات و اعراب کا یہ اختلا ف ہی دراصل قراء ات کے ظہور کا اصل سبب تھا، کیونکہ شروع میں قرآن کے نقاط اور اس کی حرکات نہیں تھیں۔ گولڈ زیہر، کوئی پہلا شخص نہیں ہے جس نے قرآن مجید اور علمائے قراء ات کے بارے میں یہ ہرزہ سرائی کی ہو، بلکہ یہ رائے ان سے پہلے بھی مستشرقین میں معروف رہی ہے اور قرآن اور اس کی قراء ات کے بارے میں مستشرقین کی جتنی قیل و قال ہے اس کامرکز ومحور یہی نکتہ ہے۔(الکتاب والسنۃ یجب ان یکونا مصدر القوانین فی مصر:۷۰، ۷۲).