کتاب: حجیت قراءات - صفحہ 22
حقیقت قراء ات
اس امر میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ قرآن مجید سات حروف پر نازل کیا گیا ہے، جیسا کہ صحیح، قطعی اور متواتر احادیث سے ثابت ہے۔ قراء کرام نے قرآن مجید کی قراء ات، اس کے حروف کی روایات اور اس کے مختلف لہجات کو اپنے اساتذہ سے براہ راست سماع کے ذریعے حاصل کیا ہے۔ یہاں تک کہ ان کی اسناد درجہ بدرجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک جا پہنچتی ہیں۔ قرآن مجید کی یہ قراء ات صحیحہ معروفہ تواتر حقیقی سے ثابت ہیں اور یہ تواتر ایسا ہے جو کسی اور کتاب کو حاصل نہیں ہوسکا ہے۔ قراء کرام نے ان قراء ات کو کلام کی تمام باریکیوں اورثقاہت کے ساتھ نقل کیا ہے۔
یہ بات تمام مسلمانوں کے علم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کومعروف قراء ات کے ساتھ لوگوں کو پڑھ کر سنایا اور انہیں ان قراء ات کے ساتھ قرآن کی تعلیم بھی دی۔ یہ قراء ات صحیح اور متواتر اسانید سے ثابت ہیں۔[1] اور یہ بات اتنی معروف ہے کہ جو شخص علومِ قرآن اور قراء ات سے ذرا بھی شغف رکھتا ہے وہ اسے بخوبی جانتاہے۔
[1] ہر قاری نے اپنے شیوخ سے ایک یا ایک سے زائد قراء ات کو سنا ہے۔ اور یہ قراء ایک دوسرے کی قراء ت کا انکار نہیں کرتے۔ ماسواء اس قراء ت کے کہ جس میں راوی سے خطا کا امکان ہو یا اس قراء ت کے نقل کرنے والے راوی کی صداقت میں شک ہو۔ یہ معاملہ اس وقت تک تھا جب تک کہ قراء ات کی مختلف روایات کو جمع اور اکٹھا نہیں کیا گیا تھا، لیکن جب قراء ات کی مختلف اسانید اور طرق معروف ہوگئے۔ متواتر اورصحیح قراء ات، شاذہ اور منکر قراء ات علیحدہ ہوگئیں تو پھر اب ان میں سے کسی کے انکار یا اس میں شک کی گنجائش نہیں ہے اور یہ بات ہر اس شخص پر واضح ہے کہ جو اسانید کے علم، نقل و روایت کے فنون ، اصولِ دین اور اصولِ فقہ سے اچھی طرح واقف ہے۔ (الکتاب والسنۃ یجب ان یکونا مصدر القوانین فی مصر:۷۳).