کتاب: حجیت قراءات - صفحہ 18
مصاحف کا کام قیل وقال کا دروازہ بند کرنے کے لئے کیا تھا، تاکہ کوئی بھی شخص قرآن مجید میں کوئی غیر قرآن چیز داخل نہ کر سکے یا قرآن مجید کے الفاظ میں تغییر کو جائز نہ سمجھ بیٹھے۔جب آپ نے یہ مصاحف لکھوا دئیے اور ان کی تلاوت کا حکم دے دیا تو کسی کے لئے کوئی باطل دعوی کرنا ممکن نہ رہا۔اور جو ایسا کرے گا وہ خطاکار ہو گا۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا ھشام بن حکیم رضی اللہ عنہ پر ایک ایسے لفظ کا انکار کیا تھا، جو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا تھا، حالانکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ وہ لفظ لغت عرب میں جائز ہے۔ اگر قرآن مجید میں تغییر ناجائز نہ ہوتی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان پر انکار نہ کرتے۔چنانچہ سیدنا عثمان نے باطل دعوے اور تبدیلی حروف کی رائے کا دروازہ بند کرنے کے لئے قرآن مجید کو ان تمام سات وجوہ پر جمع فرمایا، جن پر وہ نازل کیا گیا تھا۔سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے جمع قرآن کے وقت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں لکھے گئے صحف بھی سامنے رکھے جو سات حروف پر لکھے گئے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پتھروں کے ٹکڑوں، کھجور کے پتوں اور ہڈیوں کی تختیوں پر لکھے گئے قرآن کو بھی سامنے رکھا تاکہ کسی قائل کا کوئی قول اور کسی مدعی کا کوئی دعوی باقی نہ رہے۔
امام طبری رحمہ اللہ کی یہ بات کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے سبعہ احرف میں سے صرف ایک حرف پر مصاحف لکھوائے تھے، اس لئے صحیح نہیں ہے کیونکہ مختلف مصاحف میں مختلف حروف لکھے ہوئے موجود ہیں۔مثلا بعض مصاحف میں ((وَاَوْصٰی)) لکھا ہے تو بعض میں ((وَوَصّٰی)) لکھا ہے۔بعض میں ((وَقَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ)) لکھا ہے تو بعض میں ((قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ)) لکھا ہے۔بعض میں ((سَارِعُوْا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ)) لکھا ہے تو بعض میں ((وَسَارِعُوْا)) واو کے ساتھ لکھا ہے۔مدنی اور شامی مصاحف میں ((یَرْتَدِدْ)) لکھا ہے تو دیگر میں ((یَرْتَدَّ)) ایک دال کے ساتھ لکھا ہے۔بعض مصاحف میں ((تَجْرِیْ تَحْتَھَا الْاَنْھَارُ)) لکھا ہے تو بعض میں ((مِنْ تَحْتِھَا)) لکھا ہے۔ شامی مصحف میں ((وَبِالزُّبُرِ وَ بِالْکِتَابِ)) لکھا ہے تو دیگر میں ((وَالزُّبُرِ وَالْکِتَابِ)) لکھا ہے۔وغیرہ وغیرہ