کتاب: حجیت قراءات - صفحہ 17
اپنی آسانی کے لئے حاشیہ میں لکھی تھیں) تو وہ اسے نص قرآنی سمجھ لیتے۔ لیکن مستشرقین نے مصاحف کے حاشیہ پر لکھی گئی ان تعلیقات کو قراء ات قرآنیہ سمجھ لیا۔( اور مصاحف عثمانیہ کو ان تعلیقات سے خالی کرنے سے یہ سمجھ لیا کہ سیدنا عثمان نے قراء ات قرآنیہ کو ختم کردیا تھا۔) مصاحف عثمانیہ کا فائدہ: مصاحف عثمانیہ کا فائدہ یہ ہوا کہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے سینہ در سینہ مختلف روایات آگے منتقل ہوتیں تو بعد والے ان روایات کو اپنے پاس موجود مصحف کے رسم الخط پر پیش کرتے، اگر تو مصحف کا رسم الخط اس کا احتمال رکھتا تو وہ اسے قبول کر لیتے تھے اور اگر مصحف کا رسم الخط اس کا احتمال نہ رکھتا تو اسے چھوڑ دیتے تھے، اگرچہ وہ صحیح سند سے ہی کیوں نہ ان تک پہنچی ہو۔[1] اگر کہا جائے کہ امام طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے جو مصحف لکھا تھا وہ سبعہ احرف میں سے صرف ایک حرف پر لکھا تھا۔ اور قراء کرام کا موجودہ اختلاف وہ نہیں ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس قول ((اِنَّ ھٰذَا الْقُرْآنَ اُنْزِلَ عَلٰی سَبْعَۃِ اَحْرُفٍ)) میں بیان فرمایا ہے۔قراء کرام کا اختلاف اس سے ایک جدا چیز ہے۔کیونکہ قراء کرام کا اختلاف رسم مصحف سے خارج نہیں ہوتا ہے اور مصحف صرف ایک حرف پر لکھا گیا ہے۔باقی چھ حروف ساقط کر دئیے گئے تھے اور ایک حرف پر لکھے گئے مصحف کے خط پر بالاجماع عمل جاری ہے۔‘‘ تو اس کا جواب یہ ہے : سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے سبعہ احرف میں سے چھ حروف کو چھوڑ کر صرف ایک حرف پر مصحف لکھنے کا یہ دعوی باطل اور ناقابل قبول ہے۔کیونکہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اس کام کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔ اورپھر وہ کتاب اللہ کے کسی حصے کو چھوڑنے یا باطل کرنے سمیت کسی ایسی چیز کو کیسے حلال کر سکتے تھے، جسے اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے۔سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کتابت
[1] سنن القراء للدکتور عبد العزیز القاری:۱۷، ۱۸.