کتاب: حجیت قراءات - صفحہ 157
قابل ذکر ہیں، جبکہ ڈاکٹر علی عبد الواحد الوافی نے اس موقف سے رجوع کر لیا ہے۔ راجح موقف: مذکورہ مذہب اور ان کا مطالعہ کرنے سے جو بات کھل کر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ ’’قراء ات کا مصدر وحی اور توقیف ہے‘‘ والا پہلا مذہب ہی راجح اور صحیح ہے۔ کیونکہ جہاں صحیح اور صریح دلائل اس کی تائید کرتے ہیں وہیں عقل سلیم اور اعجاز قرآنی بھی اس کے موافق ہیں۔ اہل علم نے جو اہتمام قرآن مجید کا کیا ہے کسی اور کتاب کا نہیں کیا۔ خواہ وہ اہتمام اس کی کتابت اور اس کے حروف کی رسم کا ہو، اس کی تلاوت اور قراء ت کا ہو یا اس کے احکام اور معانی کے بیان کا ہو۔ قراء ات قرآنیہ کے تمام اصول اور تمام فروش متواتر ہیں۔ بعض سلف نے اصول کے متواتر ہونے کا انکار کیا ہے۔ جس کا جواب دیتے ہوئے علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ابن حاجب سمیت جن لوگوں کا یہ گمان ہے کہ مد، امالہ، ادغام، ترقیق راء ات، تفخیم لامات، نقل حرکت اور تخفیف ہمزہ جیسے اصول، جو اَدا سے تعلق رکھتے ہیں، یہ غیر متواتر ہیں۔ ان کا یہ گمان صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ مد مطلق، مد طبعی، مد عارض اور ؟مد طبعی؟ سمیت مد کی متعدد اقسام ہیں اور ان کے بغیر قراء ت کرنا ممکن نہیں ہے۔ پھر یہ مد ہمزہ اور سکون پر منحصر ہوتی ہے، جب حرف مدہ کے بعد سبب مد سکون یا ہمزہ ہو تو مد ہوتی ہے۔ گویا کہ مد حرف کے قائم مقام ہے۔ جسے کسی بھی مسلمان کے لیے غیر متواتر کہنا جائز نہیں۔ اسی طرح ہمزہ کی دو اقسام ہیں: ہمزہ یا تو اسی کلمہ میں ہو گا یا پھر دوسرے کلمہ میں ہو گا۔ اگر ہمزہ اسی کلمہ میں ہو تو مد متصل ہو گی اور اگر دوسرے کلمہ میں ہو تو منفصل ہو گی۔‘‘ پھر علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ ، ابن حاجب پر ردّ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’مذکورہ کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ مد، امالہ اور تخفیف ہمزہ قراء ات سبعہ میں شامل ہیں اور یہ بات واضح ہے کہ قراء ات سبعہ متواتر ہیں، لہٰذا یہ اصول بھی متواتر ہیں۔‘‘[1]
[1] منجد المقرئین: ۵۷.