کتاب: حجیت قراءات - صفحہ 156
((وَالْحَقُّ أَنَّ لَیْسَتْ ھٰذِہِ الْقِرَائَ اتُ السَّبْعُ مِنَ الْوَحْیِ فِیْ قَلِیْلٍ وَ لَا کَثِیْرٍ، وَ لَیْسَ مُنْکِرُھَا کَافِرًا، وَ لَا فَاسِقًا ، وَ لَا مُغْتَمِزًا فِیْ دِیْنِہٖ، وَ اِنَّمَا ھِیَ قِرَائَ اتٌ مَصْدَرُھَا اللَّھْجَاتُ… وَ لَیْسَتْ ھٰذِہِ الْقِرَائَ اتُ بِالْأَحْرُفِ السَّبْعَۃِ الَّتِیْ أُنْزِلَ عَلَیْھَا الْقُرْآنُ، وَ إِنَّمَا ھِیَ شَیْئٌ ، وَ ھٰذِہِ الْأَحْرُفُ شَیْئٌ آخَرُ)) [1] ’’حق بات یہی ہے کہ مروجہ قراء ات سبعہ کا قلیل و کثیرکچھ حصہ بھی وحی سے ثابت نہیں ہے ، لہٰذا ان کا منکر نہ تو کافر و فاسق ہو گا اور نہ ہی اس کے دین میں کوئی عیب لگایا جائے گا۔قرائات قرآنیہ کا مصدر لہجات ہیں۔ مروّجہ قرائات سبعہ، وہ أحرف سبعہ نہیں ہیں، جن پر قرآن مجید نازل کیا گیا تھا۔‘‘ یہ مذہب جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں،قرآن وسنت سے ثابت کسی بھی مستند اور معتبر دلیل کے بغیر قائم ہے۔ کتاب وسنت کے دلائل اس بات پر صریح موجود ہیں کہ قرائات قرآنیہ اللہ تعالی کی طرف سے نازل کردہ وحی ہیں۔ دوسرا قول:…ان میں سے بعض کے نزدیک قرائات کا مصدر قراء کرام کا اجتہاد ہے۔ حالانکہ ان کا یہ موقف مسلمانوں کے علمی وعملی موقف کے خلاف ہے۔ اس موقف کے حاملین کے پاس بھی کوئی قطعی دلیل موجود نہیں ہے،چند احادیث ایسی موجود ہیں جن کے ظاہر سے یہ وہم ہوتا ہے، حالانکہ حقیقت امر اس کے خلاف ہے۔ یہ موقف متکلمین، ابن مقسم اور ابو القاسم الخوئی کا ہے۔ تیسرا قول:…ان میں سے بعض کے نزدیک قرائات کا مصدر مصاحف عثمانیہ کا رسم ہے جو نقاط اور حرکات سے خالی تھا۔ یہ موقف بھی غلط اور بہتان بازی جو منطقی قوانین، معتبر تاریخی حقائق اور عقلی تقاضوں کے خلاف ہے۔اس موقف کے حاملین میں مشہور مستشرق گولڈ زیہر اور صلاح الدین المنجد
[1] الادب الجاھلی:۹۵،۹۶.