کتاب: حجیت قراءات - صفحہ 155
﴿وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی ، اِِنْ ھُوَ اِِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی، عَلَّمَہٗ شَدِیْدُ الْقُوٰی،﴾ (النجم: ۳ تا ۵) ’’وہ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتا، یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے ، اسے زبردست قوت والے نے تعلیم دی ہے۔‘‘ مذکورہ بالا آیات قرآنیہ سے واضح ہوتا ہے کہ قراء ات قرآنیہ کا مصدر وحی الہی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی قرآن مجید میں تبدیلی کا اختیار حاصل نہیں تھا،چہ جائیکہ کوئی عام شخص یہ جسارت کرتا۔ چونکہ قراء ت قرآنیہ بھی قرآن ہیں،لہٰذا وہ بھی وحی الٰہی اور منزل من الله ہیں۔ انھیں بھی کوئی شخص اپنے اجتہاد یا قیاس سے نہیں پڑھ سکتا،بلکہ روایت اور نقل کا پابند ہے، جس سے لہجات یا لغات کا کوئی تعلق نہیں ہے۔قراء ات قرآنیہ کے وحی الہی ہونے کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث مبارکہ بڑی صریح اور واضح ہے جو سیدنا عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( أَقْرَأَنِيْ جِبْرِیْلُ عَلٰی حَرْفٍ فَرَاجَعْتُہٗ فَلَمْ أَزَلْ أَسْتَزِیْدُہٗ وَ یَزِیْدُنِیْ حَتَّی انْتَہٰی إِلٰی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ۔))[1] ’’سیدنا عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے جبریل علیہ السلام نے ایک حرف پر قرآن مجید پڑھایا، میں نے عرض کیا( کہ یہ تنگی ہے)اور مسلسل زیادہ طلب کرتا رہا اور وہ زیادہ کرتے رہے، حتی کہ سات حروف تک پہنچ گئے۔‘‘ ۲… دوسرا مذہب: ان کے نزدیک قراء ات کا مصدر غیر توقیفی ہے۔ لیکن اس مصدر کی تحدید میں ان کے تین قول پائے جاتے ہیں: پہلا قول:…ان میں سے بعض کے نزدیک قرائات کا مصدر اہل عرب کے لہجات اور ان کی لغات ہیں۔ڈاکٹر طہ حسین اپنا یہ موقف پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
[1] صحیح البخاری ، کتاب فضائل القرآن ، باب انزل القرآن علی سبعۃ أحرف:۴۹۹۲.