کتاب: حجیت قراءات - صفحہ 151
قسم میں وہ قراء ات داخل ہیں، جو اصولوں میں مختلف ہیں۔ جیسے مد کی مقدار میں اختلاف، ہمزہ کی تحقیق و تخفیف میں اختلاف اور اظہار و ادغام وغیرہ کے اختلافات شامل ہیں۔ جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ﴾ [البقرۃ: ۳] اس آیت میں لفظ ’’یُؤْمِنُوْنَ‘‘ کو ہمزہ کی تحقیق اور ابدال دونوں کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ اسی طرح آیت مبارکہ ﴿وَ مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ﴾ [البقرۃ: ۳] میں لفظ ’’رَزَقْنٰہُمْ‘‘ کی میم کو اسکان اور صلہ دونوں کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ اس میں بعض فرشی قراء ات بھی شامل ہیں جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اِنْ یَاْتُوْکُمْ اُسَارٰی تُفٰدُوْہُمْ﴾ [البقرۃ: ۸۵] اس آیت مبارکہ میں لفظ ’’أساری‘‘ کو امام حمزہ ’’أسری‘‘ پڑھتے ہیں۔ ۲۔ متعدد المعنی قراء ات: اس سے مراد وہ قراء ات ہیں جن کے الفاظ اور معانی دونوں مختلف ہوں۔ یاد رہے کہ تعدد معنی کا یہ اختلاف تنوع کا اختلاف ہوتا ہے، تضاد کا نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تضاد کی نفی کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ وَ لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا،﴾ [النساء: ۸۲] ’’تو کیا وہ قرآن میں غورو فکر نہیں کرتے، اور اگر وہ غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے۔ ‘‘ امام ابن الجوزی رحمہ اللہ (ت ۵۹۷ھ) آیت مبارکہ ﴿لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا﴾ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اس میں تین اقوال ہیں: ۱۔ اس سے مراد تناقض ہے۔ یہ ابن عباس اور جمہور کا موقف ہیں۔ ۲۔ اس سے مراد جھوٹ ہے۔