کتاب: حجیت قراءات - صفحہ 150
مثال:… اس کی مثال سیدنا سعد بن ابی وقاص کی یہ قراء ت ’’وَ لَہٗ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ مِنْ أُمٍّ‘‘ اور سیدنا عبداللہ بن عباس کی قراء ت ﴿لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّکُمْ فِیْ مَوَاسِمِ الْحَجِّ﴾ ہے۔ ان میں سے پہلی قراء ت میں ’’ من أم‘‘ اور دوسری میں ’’ فی مواسم الحج‘‘ کی زیادتی ہے۔ اس نوع کو بھی قراء ت شمار نہیں کیا جائے گا۔ لیکن اس کی نسبت اس کے راوی کی طرف کرنا معتبر ہے۔ ۶۔ قراء ات موضوعہ: لفظ وضع (و ض ع) کے مادہ سے مشتق ہے، جس کا لغوی معنی ’’گھڑنا اور گرا دینا‘‘ ہے۔ اصطلاحی طور پر اس سے مراد وہ قراء ت ہے، جس کی نسبت اس کے قائل کی جانب بغیر سند کے ہی کی گئی ہو۔ یا وہ قراء ت جھوٹی اور من گھڑت ہو اور اپنے قائل کی طرف جھوٹی منسوب ہو۔[1] مثال:… اس کی مثال وہ قراء ت ہے، جس کی امام ابوحنیفہ کی طرف جھوٹی نسبت کی گئی ہے۔ اسے امام ابوحنیفہ سے ابو الفضل محمد بن جعفر الخزاعی نے جمع کیا اور اس سے ابو القاسم الہذلی نے نقل کیا ہے۔ اس میں سے ایک مثال ﴿اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَائُ﴾ لفظ اللہ کے ضمہ اور العلمائَ کے فتحہ کے ساتھ بھی ہے۔ ۳… معنی کے متحد اور الگ الگ ہونے کے اعتبار سے قراء ات کی اقسام معنی کے متحد اور الگ الگ ہونے کے اعتبار سے قراء ات کی دو اقسام ہیں: ۱۔ متحد المعنی قراء ات: اس سے مراد وہ قراء ات ہیں جن کے الفاظ مختلف اور معانی متفق ہوتے ہیں۔ اس
[1] الاتقان: ۱-۲۴۳.