کتاب: حجیت قراءات - صفحہ 143
بسا اوقات ظاہری اور صریح ہوتی ہے جبکہ بعض اوقات احتمالی اور مقدر ہوتی ہے۔[1] مثال:… ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾ [الفاتحۃ: ۴]اس آیت مبارکہ میں لفظ ’’ملک‘‘ کو الف کے ساتھ اور بغیر الف کے دونوں طرح پڑھا گیا ہے ۔ اس لفظ میں بلا الف قراء ت مصحف کے رسم کے ساتھ صریحاً اور ظاہراً موافق ہے، جبکہ بالالف والی قراء ت مصحف کے رسم کے ساتھ مقدراً اور احتمالاً موافق ہے۔ ۱… ضابط العربیۃ: قبول قراء ت کی تیسری شرط یہ ہے کہ وہ وجوہ عربیہ میں سے کسی ایک وجہ کے مطابق ہو، برابر ہے کہ وہ وجہ فصیح ہو یا متفق علیہ افصح ہو یا مختلف فیہ ہو۔ مثال:… ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَتُوْبُوْٓا اِلٰی بَارِئِکُمْ﴾ [البقرۃ: ۵۴] ’’اس آیت مبارکہ میں لفظ ’’بارئکم‘‘ کو ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ پڑھا گیا ہے اور یہ نافع، مکی، شامی، عاصم، حمزہ اور کسائی کی قراء ت ہے اور یہ وجہ لغت عرب میں مشہور ترین وجہ ہے۔ اسی طرح لفظ ’’بارئکم‘‘ کو ہمزہ کے سکون اور اختلاس کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے اور یہ امام ابو عمرو بصری بروایۃ الدوری کی قراء ت ہے اور یہ وجہ لغت عرب میں پہلی وجہ کی نسبت کم مشہور ہے۔ چنانچہ اس ضابطے کی بنیاد پر دونوں قراء ات ہی صحیح اور مقبول ہیں۔ لغت عرب کی وجوہ میں سے کسی ایک وجہ کے موافق ہونے کے ضابطے سے ہرگز یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم لغت عرب کو قرآن مجید پر حاکم بنا رہے ہیں۔ لیکن چونکہ قرآن مجید لغت عرب میں نازل ہوا ہے، چنانچہ یہ امر محال ہے کہ اس میں لغت عرب کے مجمع علیہ اصلی قواعد کے مخالف کوئی چیز ہو۔ اس کا یہ معنی ہرگز نہیں ہے کہ ہم نحویوں کے اقوال کو قرآن مجید پر حاکم بنا رہے ہیں بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اس بنا پر اگر ہمیں کوئی ایسی قراء ت ملتی ہے جو لغت عرب اور اسم دونوں کے موافق ہو تو اس امر میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے کہ ہم اس کی موجودہ سند سے زیادہ صحیح اور اقوی سند تلاش کریں۔ جیسا کہ پہلے بھی گزر چکا ہے کہ اسناد کے مختلف مراتب ہیں۔ بعض صحیح لنفسہٖ
[1] النشر: ۱ -۱۱.