کتاب: حجیت قراءات - صفحہ 139
بطورِ روایت یا نقل کی بجائے بطور تلاوت پڑھ رہا ہو تو پھر خلط جائز اور صحیح ہے۔ اس میں کوئی ممانعت اور حرمت نہیں ہے۔ اگرچہ بطور سد ذریعہ کے ہم اہل علم کے لیے اسے عیب شمار کرتے ہیں۔[1] شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (ت ۷۲۸ھ) سے سوال کیا گیا کہ کیا قراء ات سبعہ کو جمع کرنا سنت ہے یا بدعت؟ کیا یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جمع کی گئیں یا نہیں؟ اور کیا متعدد روایات کو جمع کر کے پڑھنے والے کے لیے صرف ایک روایت پڑھنے والے سے زیادہ ثواب ہے یا نہیں؟ تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے فرمایا: ’’نفس قراء ۃ کی معرفت اور اس کا حفظ ایک سنت متبعہ ہے، جسے بعد والے پہلوں سے اخذ کرتے چلے آ ہے ہیں۔ پس اس قرآن مجید کی معرفت جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے، یا وہ قراء ات جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت رکھا تھا یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کی اجازت دی تھی، اس کی معرفت سنت ہے اور زیادہ قراء ات کی معرفت رکھنے والے اور انہیں حفظ والے کے لیے صرف ایک قراء ات کو جاننے والے کی نسبت زیادہ ثواب ہے۔ سو نماز اور تلاوت میں قراء ات کو جمع کرنا مکروہ اور بدعت ہے۔ لیکن حفظ اور تدریس کی غرض سے جمع کرنے کا معاملہ ایک اجتہادی امر ہے، جس پر قراء کرام کی ایک جماعت کا عمل ہے۔‘‘[2] بنیادی تعریفات کے بعد اس امر کی طرف اشارہ کرنا مناسب محسوس کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے امت کی آسانی اور سہولت کے لیے قرآن مجید کو سبعہ احرف پر نازل فرمایا۔ فتوحات اسلامیہ کا دائرہ وسیع ہو جانے کے بعد ان احرف کو ضبط کرنے کی ضرورت محسوس
[1] النشر: ۱/۱۸. [2] مجموع فتاوی ابن تیمیۃ: ۱۳/۴۰۴.