کتاب: حجیت قراءات - صفحہ 136
الدکتور الطویل اختیار کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ((اِسْنَادُ کُلِّ حَرْفٍ مِنْ حُرُوْفِ الْقِرَائَ ۃِ اِلٰی صَاحِبِہٖ مِنَ الصَّحَابَۃِ فَمَنْ بَعْدَھُمْ یَعْنِیْ اَنَّہٗ کَانَ أَضْبَطُ لِھٰذَا الْحَرْفِ وَأَکْثَرَ قِرَائَ ۃً وَ اِقْرَائً بِہٖ وَ مُلَازَمَۃً لَّہٗ وَ مَیْلًا اِلَیْہِ)) [1] ’’اختیار کا مطلب یہ ہے کہ حروف قراء ت میں سے ہر حرف کو صحابہ اور ان کے بعد والے قراء کرام کی طرف منسوب کرنا جو اسے پڑھنے والا ہو۔ یعنی جو اس حرف کو دیگر کی نسبت زیادہ ضبط کرنے والا، کثرت سے پڑھنے پڑھانے والا ، اس کی پابندی کرنے والا اور اس کی طرف میلان رکھنے والا ہو۔‘‘ مذکورہ بالا تعاریف کی روشنی میں واضح ہوتاہے کہ اختیار سے مراد وہ وجہ یا صورت ہے جسے قاری راوی یا راوی کا راوی اپنی مرویات اور مسموعات میں سے پسند کر لیتا ہے۔ محقق علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’سیدنا عبد اللهبن عباس رضی اللہ عنہما ،سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی قراء ۃ پر قرآن مجید پڑھا کرتے تھے۔ سوائے اٹھارہ حروف کے۔یہ اٹھارہ حروف انھوں نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراء ۃ سے لیے تھے۔‘‘[2] امام نافع بن ابو نعیم رحمہ اللہ (ت ۱۶۹ھ) فرماتے ہیں : ’’ میں نے سترتابعین کرام سے قراء ات قرآنیہ پڑھی ہیں۔جس قراء ت میں دو یا دو سے زیادہ تابعین متفق ہوتے ہیں،میں اسے اختیار کر لیتا ہوں،اورجس میں صرف ایک تابعی ہوتا ہے،اسے ترک کردیتا ہوں۔ اس انداز سے میں نے اپنی اس قراء ت کو جمع کیا ہے۔ نیز فرماتے ہیں کہ میں نے امام ابو جعفر رحمہ اللہ کی قراءت سے ۷۰ حروف کو ترک کردیا ہے۔‘‘[3]
[1] علوم القراء ات: ۵۵. [2] غایۃ النھایۃ: ۱-۴۲۶. [3] معرفۃ القراء الکبار:۱ -۱۵۹.