کتاب: حجیت قراءات - صفحہ 131
۴۔ طاش کبری زادہ (ت ۹۶۲ھ) فرماتے ہیں: ((ھُوَ عِلْمٌ یُبْحَثُ فِیْہِ عَنْ صُوَرِ نَظْمِ کَلَامِ اللّٰہِ تَعَالٰی مِنْ حَیْثُ وُجُوْہِ الْاِخْتِلَافِ الْمُتْوَاتِرَۃِ ۔۔۔وَقَدْ یُبْحَثُ فِیْہِ أَیْضًا عَنْ صُوَرِ نَظْمِ الْکَلَامِ مِنْ حَیْثُ الْاِخْتِلَافَاتِ الْغَیْرِ مُتَوَاتِرَۃِ الْوَاصِلَۃِ اِلٰی حَدِّ الشُّھْرَۃِ)) [1] ’’علم قراء ات وہ علم ہے جس میں کلام اللہ کی متواتر اختلافی وجوہ کو منظم کرنے کی صورتوں کے بارے میں بحث کی جاتی ہے… اور بسااوقات اس علم میں کلام اللہ کی شہرت کی حد کو پہنچی ہوئی غیر متواتر اختلافی وجوہ کو منظم کرنے کی صورتوں کے بارے میں بھی بحث کی جاتی ہے۔‘‘ ۵۔ امام البنا الدمیاطی(ت ۱۱۱۷ھ) فرماتے ہیں: ((عِلْمٌ یُعْرَفُ مِنْہُ اتِّفَاقُ النَّاقِلِیْنَ لِکِتَابِ اللّٰہِ وَاخْتِلَافُھُمْ فِی الْحَذْفِ وَالْاِثْبَاتِ، وَالتَّحْرِیْکِ وَالتَّسْکِیْنِ، وَالْفَصْلِ وَالْوَصْلِ، وَغَیْرِ ذٰلِکَ مِنْ ھَیْئَۃِ النُّطْقِ وَالْاِبْدَالِ وَغَیْرِہٖ مِنْ حَیْثُ السِّمَاعِ)) [2] ’’ علم قراء ات سے مراد وہ علم ہے جس سے حذف واثبات، تحریک وتسکین، فصل ووصل اور ابدال وسماع جیسی کتاب اللہ کی نطقی کیفیات کے ناقلین کا اتفاق واختلاف معلوم ہوتا ہے۔‘‘ ۵۔ امام زرقانی(ت ۱۳۶۷ھ) فرماتے ہیں: ((ھُوَ مَذْھَبٌ یُذْھَبُ اِلَیْہِ اِمَامٌ مِنْ أَئِمَّۃِ الْقِرَائَ ۃِ مُخَالِفًا بِہٖ غَیْرَہٗ فِی النُّطْقِ بِالْقُرْآنِ الْکَرِیْمِ مَعَ اتِّفَاقِ الرِّوَایَاتِ وَالطُّرُقِ عَنْہُ، سَوَائً أَکَانَتْ ھٰذِہِ الْمُخَالَفَۃُ فِیْ نُطْقِ الْحُرُوْفِ أَمْ فِیْ نُطْقِ
[1] مفتح السعادۃ: ۲-۶. [2] اتحاف فضلاء البشر: ۱ -۶۷.