کتاب: حجیت قراءات - صفحہ 119
’’محبوبہ تجھے اپنی محبت دکھائے گی جب تو اس سے خلوت میں ملے گا،جب کہ وہ (لڑکی) اپنے دشمنوں سے مطمئن اوربے خطر ہو۔ وہ خلوت میں تجھے خوبصورت جوان، اور ایسی صاف رنگ اونٹنی کے بازو کی مانند دکھائی دیگی، جس کے پیٹ میں بچہ نہ ہو۔‘‘ امام ابو عبیدہ معمر بن مثنی (ت: ۲۱۰ھ) اپنی کتاب ’’مجاز القرآن‘‘ میں فرماتے ہیں: (( إِنَّمَا سُمِّيَ قُرْآنًا لِأَنَّہٗ یَجْمَعُ السَّوَرَ وَ یَضُمُّہَا۔)) [1] ’’قرآن مجید کو قرآن اس لیے کہتے ہیں، کیونکہ وہ سورتوں کو جمع کرتا اور باہم ملاتا ہے۔‘‘ ۲۔ التلاوۃ:… تلاوت کرنا۔ یعنی نطق میں بعض الفاظ کو بعض الفاظ کے ساتھ ملا دینا۔ اسی سے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اِِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ، فَاِِذَا قَرَاْنٰـہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ،﴾ [القیامۃ: ۱۷-۱۸] ’’بلاشبہ اس کو جمع کرنا اور( آپ کا ) اس کو پڑھنا ہمارے ذمے ہے۔ تو جب ہم اسے پڑھیں تو تو اس کے پڑھنے کی پیروی کر۔‘‘ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اسی تعریف کو اختیار کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں: ’’مفسرین نے لفظ ’’قرآن‘‘ کے مفہوم میں اختلاف کیا ہے اور ضروری ہے کہ اس کا مفہوم سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کے مطابق ہو۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے نزدیک لفظ ’’قرآن‘‘ کا مفہوم تلاوت اور قراء ت ہے اور لفظ ’’قرآن‘‘ قائل کے قول ’’قَرَأْتُ‘‘ کا مصدر ہے، جیسے لفظ ’’الخسران‘‘، ’’خسرت‘‘ کا اور لفظ ’’الغفران‘‘ ’’غفر اللّٰہ لک‘‘ کا مصدر ہے۔ میرے نزدیک لفظ ’’قرآن‘‘ مصدر ہے اور ’’قراءۃ‘‘ کے معنی میں ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ لفظ
[1] مجاز القرآن لابن قتیبۃ: ۱/۱.