کتاب: حجیت قراءات - صفحہ 108
رواۃ سے منقول بعض اوجۂ قراء ات، جیسے مقدار مدود اوران کے مراتب کااختلاف، امام حمزہ رحمہ اللہ واِمام ہشام رحمہ اللہ کی ہمزہ پر وقفی وجوہ اور اَوجہ مد عارض وغیرہ۔یہ تمام وجوہ قطعی طور پر صحیح ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ حروفِ سبعہ میں سے ہیں اور علم یقینی کے ذریعے ہم تک منتقل ہوئی ہیں، لیکن ان کا ثبوت درجہ تواتر کو نہیں پہنچتا، البتہ دیگر قرائن سے متصف ہونے کے سبب قراء ا ت ِمتواترہ کی مثل ان سے بھی قطعی علم کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ ۲… وہ قراء ت جو نہ تومعروف و مشہور ہو اورنہ ہی اُمت کے ہاں اسے تلقِّی بالقبول حاصل ہو۔ یہ قراء ت ِشاذہ ہوگی، جسکی نماز یاخارج ِنماز میں تلاوت کرنا حرام ہے۔ دوسری قسم…قراء اتِ صحیحہ کی دوسری قسم وہ ہے جو عربیت کے موافق ہو، اس کی سند صحیح ہو،لیکن کسی کلمہ کی کمی زیادتی،یا دوسرے کلمہ سے تبدیلی کی وجہ سے رسم ِعثمانی کے مخالف ہو،ایسی قراء ت کو بھی شاذ ہی کہا جائے گا، کیونکہ یہ رسم ِمصحف کے مخالف ہوتی ہے۔ اس کی سند کے صحیح ہونے کے باوجود علماء اسلام کااجماع ہے کہ اسے نماز یاغیر نماز میں تلاوت کرنا جائز نہیں ہے۔‘‘ مذکورہ ساری تفصیل کے بعد ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’علماء کے اَقوال کاخلاصہ یہی ہے کہ جو قراء ات ہم تک اجماعی طورپر بغیر کسی اختلاف کے اور اہل فن کے ہاں تلقِّی بالقبول کے ساتھ قطعی ذرائع کے ساتھ پہنچی ہیں،وہ معروف آئمہ عشرہ اوران کے رواۃ کی قراء ات ہیں۔یہی موقف آج کل حجاز، شام، عراق اورمصر کے علماء کا ہے۔‘‘ پھرابن جزری رحمہ اللہ نے بہت سے آئمہ، جیسے امام محی السنہ ابو محمد حسن بن مسعود بغوی رحمہ اللہ ، حافظ مشرق ابوالعلاء حسن بن احمد ہمدانی رحمہ اللہ ،امامِ حافظ ابوعمرو بن صلاح رحمہ اللہ شیخ الاسلام ابوالعباس احمد بن تیمیہ رحمہ اللہ ، امام ابوالحسن سبکی رحمہ اللہ اوران کے بیٹے اوران کے