کتاب: حجیت قراءات - صفحہ 104
اِسلامیہ کے تمام زمانوں میں لوگوں کی اس قدر کثیرتعدادنے نقل کیاکہ ان کا شمارکرنا محال ہے۔ زمین کے اطراف واکناف میں ہر زمانے میں ائمہ قراء ات سے بکثرت لوگوں نے نہ صرف ان کو نقل کیا،بلکہ ان میں مہارت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں مابعد لوگوں تک، حتی کہ ہمارے زمانے تک منتقل بھی کیا،چنانچہ مذکورہ دلائل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اَئمہ عشرہ کی قراء ات متواترہ ہیں۔ اس سلسلہ میں کچھ مزید شواہد درج ذیل ہیں: ۱۔ یہ قراء ات قرآن مجید کابعض حصہ اور جزء ہیں،جبکہ قرآن مجید تواپنے اجزاء سمیت سارے کاسارا بطریق تواتر ثابت ہے۔اس کاہرہر جزاور حصہ تواتر سے ثابت ہے،کیونکہ کل کے ثبوت کے لیے اجزاء کاثبوت لازمی ہے۔ مثلا الصِّرَاطَ میں سین والی قراء ت بھی قرآن کریم کا حصہ ہے اورصاد والی بھی۔یہ دونوں قراء تیں متواتر ہیں،جس سندسے ایک قراء ت ہم تک پہنچی ہے،اسی سند سے دوسری بھی موصول ہوئی ہے۔ان میں سے ہر ایک قراء ت قرآن ہے۔اگر ہم یہ کہیں کہ ان میں سے ایک قراء ت متواترہ ہے اوردوسری نہیں، حالانکہ دونوں کا ذریعہ نقل ایک ہے، تو یہ محض سینہ زوری اور دو ایک جیسی چیزوں کو بغیردلیل کے قبول کرنایارد کرناہے، چنانچہ یہ دعویٰ باطل اورغیرصحیح ہے۔ معلوم ہوا دونوں قراء ات متواترہ ہیں اوریہی ہمارا مطلوب ہے،کیونکہ کسی قراء ت کے تواتر کے انکار سے پورے قرآن کے تواتر کا انکار لازم آتا ہے۔جب پورے قرآن کریم کے تواتر کی نفی کریں گے تولامحالہ اجزاء کی نفی ہوگی، حالانکہ قرآن کے تواتر کا انکار سراسرباطل ہے۔وہ آدمی جو قراء ات میں سے بعض کو متواترمانتا ہے، لیکن بعض کے تواتر سے منکر ہے تواس کے قول کابطلان واضح ہوگیا۔جب اس قول کا بطلان متعین ہوگیاتونتیجہ ثابت ہوگیا کہ قرآن کریم متواتر ہے اوریہی ہمارا مقصود ہے۔ ۲۔ چونکہ حدیث: ’’ أُنْزِلَ الْقُرْآنُ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ ‘‘ متواتر ہے اور متواتر ہونے کی وجہ سے علم قطعی کافائدہ دیتی ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ عرضہ اَخیرہ میں ان دس