کتاب: حجیت حدیث(شیخ البانی) - صفحہ 82
اقوال ِ صحابہ سے احکام لینے کی بجائے اس کی تقلید پر اکتفا کرنا اور اس کے ساتھ یہ سمجھنا کہ جس کی تقلید کی جارہی ہے وُہ صرف وہی بات کہتا ہے جو کتاب وسنت میں ہوتی ہے، ایک تو یہ کلام ایسی شہادت کو متضمن ہے جس کے متعلق شاہد کو علم نہیں ہےاور اللہ پر بغیر علم کے بات کہتا ہے دوسرے یہ اپنے متبوع امام کے مخالف کے بارے میں خبرہے کہ وُہ کتاب کو درست نہیں سمجھا۔ خواہ وُ ہ اس کے امام سے بھی زیادہ عالم ہو۔ مقلد کہتا ہے کہ میرا متبوع ہی راہِ حق وصواب پر ہے، یا وہ کہتا ہے کہ دونوں کی بات کتاب وسنت کے موافق ہے۔ خواہ اُن کے اقوال باہم متعارض ہوں تو اس طرح وہ کتاب وسنت کے دلائل کو متناقض بنادیا ہے۔ کیا اللہ اور اس کا رسول بیک وقت دو متضاد باتوں کا حکم دیتے ہیں‘ حالانکہ اس کا اپنا دین آراء الرجال کے تابع ہے۔ نفس الامر میں اس کے لیے کوئی معین حکم نہیں ہے۔ پس وُہ یا تو اس کے مسلک پر چلے گا یا اپنے متبوع کے مخالف کو خطا کار کہے گا۔ ان دو میں سے ایک امر تو اس پر لازم ہوگا۔ یہ اس تقلید کی برکت ہے۔ جب یہ سمجھ میں آگیا تو ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں اب پھر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر واجب کیا ہے کہ وُہ حسب استطاعت تقویٰ اختیار کریں‘تقویٰ کا اصل یہ ہے کہ جس سے ڈرا جائے اس کی معرفت حاصل کی جائے پھر اس پر عمل کیا جائے۔ سو ہر شخص پر واجب ہے کہ جس سے وُہ ڈرتا ہے ہے ا سکی معرفت حاصل کرنے میں پوری جدوجہد کرے کہ کس چیز کا اللہ نے حکم دیا ہے، کس چیز سے روکا ہے پھر اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا التزام کرے اور جو اس پر مخفی رہ گیا وہ اس میں سوائے اللہ کے اپنے امثال کی طرح ہے چونکہ آپ کے سوا ہر شخص پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت سے کچھ نہ کچھ مخفی ہے اس کمی اور خفا کی وجہ سے وہ اہل علم سے خارج نہیں ہوگا۔ اللہ نے اُس کو اس چیز
[1] اعلام الموقعین ۲/۳۳۳